سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا معاملہ ،سپریم کورٹ میں لارجر بینچ نے سماعت کی

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے تحریری دلائل بھی جمع کروائے ، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتایہ بھی نہیں کہیتا کہ ملٹری کورٹس کے زریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں،میرا مدعا تمام ملزمان میں سے چند کے ساتھ الگ سلوک ہوا،ایک ایف آئی آر میں ساٹھ ملزمان ہیں تو پندرہ ملٹری کورٹس کو دیے جاتے ہیں ، ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں ان پر تین الگ طرح کے ٹرائل ہو سکتے ہیں ،میرا دوسرا نقظہ فیئر ٹرائل کا ہے،ایک الزام پر ٹرائل کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اپیل کا حق ہو گا اور کچھ کے پاس نہیں سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں ، فوجی عدالتوں میں فوج داری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی ، اس کو چیلنج نہیں کیا،میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا، فوج کے حوالے ملزمان کو کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا،آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے،عدالت میں جا کر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں،جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہو گا ان کو اپیل کا حق ملے گا،جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں ،

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں،9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیشل سیکورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، سٹیٹ سیکورٹی کے حدود میں جائینگے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو،آپ صرف مفروضہ پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کیخلاف کوئی شواہد موجود نہیں، جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھجا گیا ، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فرض کریں ان کیخلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاوں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھجا جا سکتا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اپنے دلائل کے متعلقہ نکات تک محدود رکھیں،آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے بے شک تین بجے تک دلائل دیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والے بندہ ہو تو ہی آفیشیل سکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندرجرم ہونے سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ وہ کون سا جرم ہو گا جن کے مقدمات ملٹری کورٹس کونہیں یجوائے جائیں گے ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں گرفتار ملزمان آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت نہیں آتے ، آفیشل سیکریٹ ایکٹ مقدمات میں کب شامل کیا گیا ، جسٹس نقوی نے کہا کہ اگر مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ شامل ہی نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ان ملزموں کی حوالگی مانگ سکتا ہے ، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی سیشن 2ڈی (1) (11) کے تحت سویلینز کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو سکتا ہے ، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سادہ سا سوال ہے کس طریقہ کار کے تحت یہ اختیار استعمال ہوتا ہے

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ کار ہے،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے،جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں،اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ سے دو سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں،آپ پراسس بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہو گا،آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے،عدالت نے کیس کی سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا۔

دوبارہ سماعت ہوئی تو وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے،اس کا جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے،رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے،یہاں 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے،یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں،ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے،

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل الگ نوعیت کے حالات میں ہو گا،آپ یہ بھی پھر واضح کریں کہ وہ الگ نوعیت کے حالات کیا ہوں گے،کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ محدود معاملات پر ہی سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے،فیصل صدیقی نے کہا کہ چیئرمین نیب اختیارات کیس میں 2003 کا ایک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے،عدالت نے کہا تھا عام عدالت سے کیس تب تک نیب کورٹ نہیں جائے گا جب تک چیئرمین کے صوابدیدی اختیارات سٹرکچر نہیں ہوتے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف مجسٹریٹ نے کیا ہو؟فیصل صدیقی نے کہا کہ جی میں اس حوالے سے فیصلوں کی نظیریں پیش کروں گا،وکیل احمد حسین نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ میرا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا،ہمارا اعتراض یہ بھی نہیں کہ لوگون کے خلاف کارروائی نہ ہو ،ہمارا نقطہ فورم کا ہے ،کہ کارروائی کا فورم ملٹری کورٹس نہیں،سوال یہ ہے سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟ آرمی ایکٹ کا مقصد ہے کہ آرمڈ فوسز میں ڈسپلن رکھا جائے،جن افراد کو مسلح افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پر ہی اس ایکٹ کا اطلاق ہو گا،

انتہائی غیر معمولی حالات میں فوجی عدالت فعال ہو سکتی ہے،وکیل فیصل صدیقی
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‏جب کور کمانڈر ہاؤس فوجی تنصیبات میں آتا ہی نہیں تو فوجی ٹرائلز کس بنیاد پر چلائے جا رہے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ بھی قانون میں ہے کہ اگر فوج سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے،جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ‏کیا ہمیں مکمل تفصیلات حاصل ہیں کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوج کیسے کسی کو ملزم قرار دیتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہم تو کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ حقائق سامنے نہ بھی ہوں تو بھی یہ کیس بادی النظر کا بنتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہنے کہا کہ ‏آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان پر خلاف بظاہر کوئی الزام نہیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ میں یہ کہہ رہا ہوں چارج کرنے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے،9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے سویلین ملٹری کورٹ نہیں جا سکتا،سویلینز کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوتا ہے،انتہائی غیر معمولی حالات میں فوجی عدالت فعال ہو سکتی ہے،

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ‏دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو، جسٹس عائشہ ملک‏ نے کہا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ یہ بتا دیں کہ کون سے غیر معمولی حالات میں سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟ جسٹس منیب اخترنے کہا کہ آپ کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہونے والا جرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہو،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگتا ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جا سکتی،‏وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے

آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی،وکیل فیصل صدیقی
سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے دلائل شروع ہو گئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی،ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، جسٹس منصور علی‏ شاہ نے کہا کہ آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے،فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں ، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں ،فیصل صدیقی‏ نے کہا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں اب آگے چلتے ہیں ، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا سویلینز کا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہے یا نہیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انسداد دہشتگردی قانون میں جرائم آفیشل سیکریٹ ایکٹ سے بالکل مختلف ہیں، جسٹس منیب اختر‏ نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ ہم سویلینز کو ملٹری کورٹ کے حوالے نہیں کر رہے،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں،آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی،

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا مقصد افواج میں ڈسپلن برقرار رکھنا ہے، سویلینز کا کورٹ مارشل کر کے بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کیا جا رہا ہے، جواد ایس خواجہ کے وکیل نے لارجر بنچ بنانے کی استدعا کر دی،کہا اگر عدالت سمجھتی ہے کہ میرے کیس میں ٹھوس وجوہات ہیں تو لارجر بنچ بنا دیں، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو سنیں گے، ابھی نماز کیلئے بریک لیں گے اور ڈیڑھ بجے واپس آئیں گے،وکیل نے کہا کہ ،یہ بہت اہم کیس ہے اس سے ایک مثال قائم ہوگی،عدالت نے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہوگا تو دیکھیں گے آپ بات تو کریں،

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت، وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین روسٹرم پر آگئے ،اور کہا کہ کورٹ مارشل سے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں، آرٹیکل 10 کے مطابق شفاف ٹرائل کا حق ہر شخص کو ہے. آرٹیکل 25 ہر شہری کی عزت نفس کی ضمانت دیتا ہے، کورٹ مارشل سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے کورٹ مارشل کیلئے ایک آفیسر کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی جاتی ہے

دوران سماعت خواجہ احمد حسین نے کلبھوشن کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ کلبھوشن کا کورٹ مارشل کرکے سزا دی گئی تھی، عالمی عدالت انصاف میں بھارت نے سزا کیخلاف اپیل کی، پاکستان کا موقف تھا کہ کلبھوشن کو سزا پر عدالتی نظرثانی کا قانونی حق حاصل ہے،عالمی عدالت انصاف نے عدالتی نظرثانی کو با ضابطہ اپیل طرز پر ہونے کا موقف تسلیم نہیں کیا، عالمی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان کو کلبھوشن کیلئے قانون سازی کرنا پڑی، فوجی عدالتوں میں موجود ججز آرمی افسر اور ادارے کے ماتحت ہوتے ہیں ،خفیہ مقام پر ہونے والے ٹرائل کی قانون میں گنجائش نہیں، شفاف ٹرائل کیلئے آزاد عدلیہ کا ہونا لازمی شرط ہے، فوجی عدالت کے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ کا نظرثانی اختیار محدود ہوتا ہے، آئینی طور پر عدالت وہی ہوسکتی ہے جو آرٹیکل 175 میں بیان کی گئی، آرٹیکل 175 میں کسی فوجی عدالت کا ذکر نہیں، جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں فوجی عدالتوں اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی توثیق کر چکی، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ سال 2015 میں قائم فوجی عدالتوں کو دو سال کا آئینی تحفظ دیا گیا تھا، مخصوص مدت کیلئے قائم فوجی عدالتوں کی توثیق کی گئی تھی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ملک حالت جنگ میں ہے، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ معلوم نہیں اس وقت حالت جنگ میں ہونے کے معاملے پر وفاقی حکومت کا کیا موقف ہے، عدلیہ کی موجودگی میں کسی سویلین کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا، موجودہ کیس میں فوجی عدالتوں کی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی،کلبھوشن کیلئے اپیل کے حق کا نیا قانون بھی بنایا گیا تھا، 21ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم فوجی عدالتوں کا دورانیہ مختصر تھا

آئین کہتا ہے کہ آرمی سے متعلق کسی قانون میں مداخلت نہیں کی جا سکتی،جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسی لیے آپ موجودہ کیس کو21 ویں آئینی ترمیم سے الگ قرار دے رہے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ آرمی سے متعلق کسی قانون میں مداخلت نہیں کی جا سکتی، ہم کسی قانون کو چھیڑے بغیر اس کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ وکیل احمد حسین نے کہا کہ آرمی کی سینئر کمانڈ نے پریس ریلیز میں دو نتائج اخذ کیے ، پریس ریلیز میں کہا گیا 9 مئی کو ملٹری تنصیبات پر حملہ کیا گیا،پریس ریلیز میں کہا گیا حملے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، یہ نتائج پہلے سے اخذ کرنے کے بعد وہ خود اس معاملے کے جج نہیں ہوسکتے ،

اگرآپکی استدعا منظورکرلی جائے توآرمی ایکٹ ختم ہوجائے گا،جسٹس منیب اختر
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں کون سے سویلینز کی بات ہو رہی ہے؟ سویلینز تو ریٹائرڈ فوجی افسران بھی ہیں، قانون میں یہ کیوں درج ہے کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ عدالت کے سامنے بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ زبردستی لایا جا رہا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بنیادی حقوق کو معطل کیا گیا ہے، سویلین کوبنیادی انسانی حقوق کے تحت تحفظ ہرصورت حاصل ہے، وکیل نے کہا کہ آرمی افسران کے بنیادی حقوق کا معاملہ عدالت نہیں دیکھ سکتی لیکن سویلینز کا دیکھا جا سکتا ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگرآپکی استدعا منظورکرلی جائے توآرمی ایکٹ ختم ہوجائے گا،مخصوص حالات میں آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے،ایمرجنسی میں تو لوگوں کی نقل وحرکت بھی روک دی جاتی ہے، آئین تو نقل و حرکت اورآزادی کا حق دیتا ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے،

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تفریق کیسے ہوگی کہ آرمی ایکٹ صرف فوج پر لاگو ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کے مطابق اس کا اطلاق سویلینز پر بھی ہوتا ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سویلینز میں تو تمام شہری آتے ہیں، کیا سب پر آرمی ایکٹ لاگو ہو سکتا ہے؟ آرمی ایکٹ ان سویلینز پر لاگو ہوگا جو فوج سے تعلق رکھتے ہوں، فوج میں صرف فوجی نہیں سویلین بھی ہوتے ہیں، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اصولی طور پر تو اُن سویلینز کا ٹرائل بھی فوجی عدالتوں میں نہیں ہونا چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عام شہریوں کو بنیادی حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ موجودہ کیس میں کسی ملزم کا تعلق فوج سے نہیں ہے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی جیسے معاملات میں فوج براہ راست متاثر ہوتی ہے،کسی حاضر سروس فوجی افسر کو قومی سلامتی کے خلاف سازش کیلئے اکسانا سنگین جرم ہے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے،وکیل احمد حسین نے کہا کہ اس صورت میں سویلین کیخلاف کاروائی ہو سکتی ہے جب وہ بیرونی سازش کا حصہ ہوں،سویلینز کا ملک کے خلاف گٹھ جوڑ ثابت ہو جائے تو کاروائی ہوسکتی ہے، وقت آچکا ہے کہ کھل کر حقوق کیلئے آواز بلند کی جائے،وکیل احمد حسین سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے، کوئی سویلین فوجی کو بغاوت کیلئے اکسائے تو ملٹری کورٹس کاروائی کر سکتی ہیں،دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے ،اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں، پشاور میں چار لوگ زیر حراست ہیں، پنجاب میں ایم پی او کے تحت اکیس افراد گرفتار ہیں، انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں،اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص گرفتار نہیں ہے،سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345 افراد گرفتار ہوئے اور ستر رہا ہوئے، 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں، فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں ہیں، کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہیں،

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزاز احسن نے درخواست دائر کی ، دائر درخواست میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی،اعتزاز احسن کی طرف سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست دائر کی، سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر رپڑ اسٹمپ کا کردار ادا کیا۔سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے آرمی ایکٹ کا سیکشن 94 اور 1970 کے رولز غیر مساوی ہے۔سیکشن 94 اور رولز کا بھی غیرآئینی قرار دیا جائے انسداد دہشت گرد عدالتوں کے ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، عسکری حکام کے حراست میں دئیے سویلین کی رہائی کا حکم دیا جائے ،سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں شہباز شریف، خواجہ آصف، رانا ثناءاللہ، عمران خان، پانچوں آئی جیز، تمام چیف سیکرٹریز، وزارت قانون، داخلہ، دفاع، کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے

 کسی سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہونا چاہیے

کرپشن کا ماسٹر مائنڈ ہی فیض حمید ہے

برج کھیل کب ایجاد ہوا، برج کھیلتے کیسے ہیں

عمران خان سے اختلاف رکھنے والوں کی موت؟

حضوراقدس پر کوڑا بھینکنے والی خاتون کا گھر مل گیا ،وادی طائف سے لائیو مناظر

برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ مہمان کھلاڑی حویلی ریسٹورنٹ پہنچ گئے

کھیل سے امن کا پیغام دینے آئے ہیں.بھارتی ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس

وادی طائف کی مسجد جو حضور اقدس نے خود بنائی، مسجد کے ساتھ کن اصحاب کی قبریں ہیں ؟

9 مئی کے بعد زمان پارک کی کیا حالت ہے؟؟

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ ہوا، تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے، حکومت کی جانب سے فیصلہ ہواکہ حملے کرنیوالے تمام شرپسندوں کے مقدمے ملٹری کورٹ میں چلائے جائیں گے

Shares: