پاکستان کی نامور اداکارہ و گلوکارہ آشا پوسلے

آشا نے اپنی فنی زندگی کا آغاز چار پانچ برس کی عمر میں دہلی ریڈیو میں بچوں کے پروگرام سے کیا
0
149
showbiz

آشا پوسلے \رفعت عائشہ

(گلوکارہ اداکارہ)

آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا اور وہ 1927ء میں ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1946ء میں انہوں نے فلم کملی سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔آشا پوسلے نے ہیروئن کے ساتھ ساتھ کئی فلموں میں ویمپ کا کردار بھی ادا کیا بلکہ اس کردار میں وہ ہیروئن سے زیادہ پسند کی گئیں۔ آشا پوسلے کے والد ماسٹر عنایت علی ناتھ فلمی دنیا سے بطور موسیقار منسلک تھے اور ان کی ایک بہن رانی کرن بطور اداکارہ اور دوسری کوثر پروین بطور گلوکارہ فلمی دنیا سے منسلک رہی تھیں. معروف غزل گائیک اعجاز قیصر سات سال کی عمر میں جب اپنے استاد اختر حسین اکھیاں کے گھر پر رہنے لگے تو ان تینوں بہنوں یعنی رانی کرن۔ آشا پوسلے اور اختر حسین اکھیاں کی شریک حیات کوثر پروین نے ان کی پرورش کی اعجاز قیصر ان تینوں بہنوں کو بہت احترام و عقیدت سے دیکھتے تھے جس کا ذکر ہم اعجاز قیصر صاحب کی سوانح عمری میں تفصیل سے کریں۔

آشاء پوسلےجو قیام پاکستان سے قبل لاہور میں بننے والی آخری فلم کی بھی ہیروئن تھیں شوکت علی چھینہ کی ایک تحریر میں انہوں نے آشاء پوسلے بارے تفصیلی معلومات لکھیں جن میں سے چند اقتباس پیش خدمت ہیں وہ لکھتے ہیں کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ ”میرے جنازے میں پوری فلم انڈسٹری شریک ہواور مجھے پوری شان و شوکت سے قبر میں اتارا جائے تاکہ دُنیا کو پتہ چلے کے شہزادی آشا پوسلے مر گئی ہے“ یہ آخری حسرت تھی ماضی کی معروف اداکارہ اور پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی، جو پوری نہ ہوسکی اور اس کی موت پر کوئی بھی فلمی شخصیت اس کے جنازے میں شریک نہ ہوئی۔

جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا پے کہ آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا مگر وہ ریڈیو پر رفعت عائشہ کے نام سے گاتی رہیں لیکن فلمی دنیا میں آشا پوسلے نام اختیار کیا۔ ان کے والد عنایت علی ناتھ مشہور گرامو فون کمپنی ”ہز ماسٹر وائس“ (H.M.W)میں میوزک ڈائریکٹر تھے۔ بڑی بہن رانی کرن ریڈیو آرٹسٹ اور فلمی اداکارہ تھیں، چھوٹی بہن کوثر پروین نے گلوکاری میں نام پیدا کیا، ان کے بھائی شمشیر علی موسیقار تھے۔

آشا نے اپنی فنی زندگی کا آغاز چار پانچ برس کی عمر میں دہلی ریڈیو میں بچوں کے پروگرام سے کیا۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا توپنجاب کے میلوں ٹھیلوں میں تھیٹرلگانے شروع کر دئیے۔ ا س زمانے میں ان کے تھیٹر بہت مقبول ہوئے، گلوکاری کا فن انہیں ورثے میں ملا تھا۔وہ غزل ، گیت ، ٹَپّے، ٹھمری، دادرا اور بہت سی دوسری اصناف گانے میں مہارت رکھتی تھیں۔ انہیں ایک ہی گیت کو 20مختلف انداز میں گانے میں مہارت حاصل تھی۔وہ اپنے تھیٹر میں ایک حاضرین کوایک ہی گیت سے دو دو گھنٹے تک محظوظ کیا کرتی تھیں۔

تھیٹر کے علاوہ انہیں ٹی وی کے بھی ابتدائی فنکاروں میں شمار کیا جاتاتھا۔ انہوں نے چند ٹی وی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی پر نامور گلوکار طفیل نیازی کی سنگت میں بھی کئی یادگار گیت پیش کئے۔

1940ءکے لگ بھگ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ دہلی سے لاہور منتقل ہوگئیں۔ آشا پوسلے کا فلمی کیریئر اس وقت شروع ہوا جب وہ اپنے والد کے ساتھ 1942ءمیں ریلیز ہونے والی ہدایت کار بی آر سیٹھی کی فلم ”گوانڈھی“ کی شوٹنگ دیکھنے سٹوڈیوز گئیں۔ اس دوران ہدایت کار برکت مہرہ نے انہیں اپنی فلم ”چمپا“ میں کام کرنے کی آفر کی، جو اس نے فوراً قبول کر لی۔

اس فلم میں آشا کے علاوہ منورما، مجنوں، شیخ اقبال اور غلام قادر نے کام کیا۔ یہ فلم 1944ءمیں ریلیز ہوئی مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ 1946ءمیں ہدائت کار پرکاش بخشی کی فلم ”کملی“ میں پہلی بار ہیروئن آئیں، یہ فلم بھی ناکام رہی ۔اس کے بعد آئی بہار، خاموش نگاہیں،آر سی اور ایک روز جیسی فلموں میں مرکزی اور ثانوی رول کیے۔قیام پاکستان سے قبل لاہور میں بن کر ریلیز ہونے والی فلم ”پرائے بس میں “بطور ہیروئن ان کی آخری فلم تھی۔

اس طرح انہوں نے قیام پاکستان سے قبل بھی متعدد فلموں میں کام کیا۔ آشا جی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان کی لاہور میں بننے والی سب سے آخری فلم ”پرائے بس میں“ اور قیام پاکستان میں بعد لاہور میں بننے والی پاکستانی کی پہلی فلم ”تیری یاد“ کی ہیروئن تھیں۔

قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں پاکستان کی پہلی فلم ”تیری یاد “ریلیز ہوئی ، اس میں بھی یہ ہیروئن تھیں۔ اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان تھے۔ یہ فلم لاہور کے پربھات (موجودہ امپائر)سینما میں ریلیز ہوئی اور صرف پانچ ہفتے تک چل سکی۔ پھر ”غلط فہمی “ اور ”بلبل“ میں ہیروئن آئیں،یہ بھی ناکام رہیں۔

یوں اس کا فلمی کیرئیر شائد ختم ہی ہو جاتا کہ ہدائتکار داؤد چاند نے انہیں اپنی ایک فلم ”سسی“ (1954ء)میں ویمپ کے کردار میں کاسٹ کر لیا ، یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور گولڈن جوبلی کی۔یوں اس نے بحیثیت ویمپ ایک نئے سفر کا آغاز کیا، اس فلم میں اس کی اداکاری واقعی لاجواب تھی۔

اس کے بعد 1956ءمیں ہدائتکار نذیر اجمیر ی کی فلم ”قسمت “میں بھی ویمپ کا رول کیا ، یہ بھی کامیاب ہوئی۔ اس میں اس کا ایک رقص نہائت بے مثال تھا۔ اسی سال اس کی ایک اور فلم ”انتظار“ریلیز ہوئی، اس میں بھی اس نے نور جہاں کے مقابل ویمپ کا رول کیااور اپنی اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ فلم ”انارکلی“ شہنشاہ اکبر کی رانی اور شہزادہ سلیم کی ماں جودھا بائی کے کردار میں بھی انہوں نے لاجواب پرفارمنس دی۔

وہ اپنے وقت کی بہترین ڈانسر بھی تھیں، ان کا ریکارڈ آج تک کوئی ہیروئن نہیں توڑ سکی۔ہدایت کار لقمان کی فلم ”پتن“ کیلئے انہوں نے پورا گانا صرف دو گھنٹے میں پکچرائز کروا دیا۔ رقص کی تربیت انہوں نے اس وقت کے نامور رقاص استاد عاشق حسین سمراٹ سے حاصل کی تھی۔

اس کے بعد وہ مزاحیہ ٹریک پر آئیں تو کامیڈین نذر کے ساتھ اس کی جوڑی خوب بنی، اس سلسلے میں ”دلا بھٹی“اس کی یادگار فلم تھی، اس میں اس نے شیخ اقبال کی بیوی اور آصف جاہ کی محبوبہ کا رول کیا تھا۔ آشا پوسلے ایک کامیاب ہیروئن تو نہ بن سکی مگر ویمپ اور مزاحیہ کرداروں میں خوب نام کمایا ۔

پاکستان میں ویمپ کے کردار کی ابتداءبھی آ شا پوسلے نے ہی کی۔انہوں نے کم و بیش سو سوا سو فلموں میں کام کیا۔اسکی یادگار فلموں میں طوفان، قسمت، آشیانہ، ہم ایک ہیں ،سسی ، پتن، حاتم، شعلہ برکھا، دُلّا بھٹی ،مورنی ،گڈی گڈا،مراد ، سات لاکھ، مکھڑا ، پردیسی، نغمہءدل ،انار کلی اور نوکری کے نام شامل ہیں۔ان کی آخری فلم ”راجو بن گیا جنٹلمین“تھی جو 1996ءمیں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے 20سال کے عرصہ کے بعد صرف ایک سین کیاتھا جس میں اداکار افضل خان ریمبو کو مشکل میں ڈال کے رکھ دیا۔

آشا جی نے تمام عمر شادی نہیں کی۔ انہوں نے اپنی بہن کوثر پروین (جو جوانی ہی میں انتقال کر گئی تھیں) کا بیٹا شہزاد اختر گود لیا ہوا تھا۔وہ کہا کرتی تھیں یہ آرٹسٹ لوگوں کا ملک ہی نہیں، یہاں فن کار کی قدر نہیں کی جاتی، اور یہ اس بات کی زندہ مثال تھی کہ اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل ماضی کی یہ نامور فنکارہ قیام پاکستان کے موضوع پر بنائے گئے ایک ڈرامے میں درجن بھر فنکاروں کے پیچھے ایک ایکسٹرا کی حیثیت سے چپ چاپ کھڑی نظر آئی تھیں۔

عمر کے آخری دنوں میں ان کا دماغی توازن بگڑ چکا تھااور وہ کچھ عرصہ سے دل کے عارضہ میں بھی مبتلا رہنے لگی تھیں۔ بالآخر 25مارچ 1998ءکی شام کو اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔ان کے جنازہ میں کوئی فلمی شخصیت شریک نہ ہوئی اور یوں اس کی آخری حسرت بھی پوری نہ ہوسکی۔ انہیں دوہٹہ قبرستان گڑھی شاہو میں سپرد خاک کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی سی اردو سروس

Leave a reply