جب سے یہ دنیا بنی جرائم ہمیشہ سے ہیں.یہ دنیا خطا کہ پُتلے "انسانوں "کی ہے. حق و باطل, اچھائ و برائ کی یہ جنگ رہتی دنیا تک جاری رہنے والی ہے.یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا ہے کہ سب فرشتہ صفت ہو جائیں کوئ گنہگار نہ بچے اور یہ دنیا جنت کا منظر پیش کرے.جہاں بہت سے اچھے لوگ ہیں جنکی وجہ سے انسانیت زندہ ہے وہیں کچھ لوگ انسانیت کے نام پر شرمناک دھبہ ہیں. اس دنیا میں اچھائ کی برتری اور بدی و جرائم کی سرکوبی کے لیے خالقِ کائنات نے دین ِاسلام میں واضح شرعی سزائیں مقرر فرمائ ہیں تا کہ نظام ِعدل سر بلند رہے اور دنیامیں اچھائ کو برائ پر فوقیت رہے. .نبیِ آخر الزماںﷺ کے مبارک دور سے خلفائے راشدین اور جب تک اسلام سپر پاور رہا,مسلمانوں کا دورِ عروج رہا یہ صرف تب تک تھا جب تک امتِ مسلمہ نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا.اور دنیاوی و دینی تعلیم ہو,میدانِ سیاست ہو یا نظامِ عدل ہر جگہ احکامِ الہی کو مدِ نظر رکھا جاتا رہا.سخت شرعی سزاؤوں کا نفاظ رہا.حکمران اپنے آپ کو رعایا کے جان و مال کا امیں سمجھتے رہے.وقت کا سفر جاری رہا مسلمانوں نے عروج سے زوال کی سیڑھی پر قدم رکھا حاکم سے محکوم ہوئے.. بظاہر اسلامی ممالک رہے مگر جدید دنیا کے تقاضوں اور مغرب کی اندھی تقلید میں اسلامی نظام اور قوانین کو کہیں پسِ پشت ڈال دیا گیا.اسلامی سزائیں مغرب کے کہنے پر "انسانیت "کے نام پر ختم کر دی گئیں. یہاں سے انسانیت کے شرمناک دور کا آغاز ہوا ہر آنے والے وقت میں جرائم, نا انصافی کی شرح پہلے سے بڑھتی گئی.غرباء اور بے بس لوگوں کی عزت دو کوڑی سے بھی کم خون پانی سے سستا ہوتا گیا. نظامِ عدل, انصاف,قوانین صرف نام کے رہ گئے.عدالتیں اور فوری انصاف صرف اشرفیہ جاگیرداورں,سیاست دانوں , بیوروکریسی اور طاقتور لوگوں کا حق بن گیا.کیس اپنی مرضی کی عدالت میں لگوا کر,مرضی کا مصنف خرید لینا اور فیصلہ بھی مرضی کا یہ عام سی باتیں بن کہ رہ گئی ہیں. شاہ زیب قتل کیس سے زین قتل کیس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سانحہ یتیم خانہ چوک لاہور تک ہزاروں مثالیں ہیں. غریبوں کے لیے فوری انصاف حاضر ہے جب کہ غرباء میں اگر مقتول قتل ہوتا ہے تو لواحقین کی وکلاء کی مہنگی فیسوں اور عدالتوں کے چکروں میں زندگی تمام ہوتی ہے اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ملزم پابندِ سلاسل وفات پا جائے بعد میں عدالت میں بے گناہی ثابت ہو. ایسی مثالیں بھی ہیں نوجوانی میں بے گناہ لوگ اس اندھے نظام کی بھینٹ چڑھتے ہیں اور بالوں میں سفیدی آنے پر انہیں باعزت رہائ کا پروانہ ملتا ہے ان رسمی لفظوں کے ساتھ کہ نظامِ عدل آپکی ساری زندگی ضائع کر دنیے پر معزرت خواہ ہے.یہ معزرت ہے یا بدترین مذاق؟ہزاورں بے گناہ زینب /ماہم / نور مقدم ہوس کے پجاریوں کی بھینٹ چڑھتی ہیں 100 میں سے ایک کو سزا ملتی ہےاور باقی چند سال سرکاری مہمان پر جیل میں رہتے اور رہائ پاتے ہیں.مجرم طاقت ور ہو تو ایف آی آر تک درج نہیں ہوتی. آج اپنے نظامِ عدل سے ذرا سی واقفیت رکھنے والا شخص آسانی سے نور مقدم کیس کا مستقبل بتا سکتا. ملزم کو ذہنی مریض ثابت کیا جائے گا ,ڈی این اے رپورٹ تبدیل ہوگی یا تھراپی ورکرز میں سے کسی کو قربانی کا بکرا بنا دیا جائے یا انکے بیانات بدلوا لیے جائیں گے.یہ ہے ملک کا جوڈیشنل سسٹم.مقتول لاشوں کو کندھوں پر رکھ کے پھرتے ہیں, بے گناہ کے آنسو انکے گریبانوں پر گرتے ہیں پتھر دل نظامِ عدل کے علمبرداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی.
کچھ سرعام ،کچھ پسِ دیوار بکتے ہیں !
اس شہر میں ضمیر بکتے ہیں!
یہاں تہزیب بکتی ہے !
یہاں فرمان بکتے ہیں!
ذرا تم "دام ” تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں
کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟کیا ہم مسلمان ہیں اس اسلام کے پیروکار ہیں جسکے رہنما سیدنا محمدﷺ کا عدل یہ تھا کہ فرمایا میری جان سے عزیز بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی چوری کریں تو انکے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دوں. ہمارے اسلاف /ہمارے رہنما وہی عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نہیں کہ گلیوں میں گشت فرما رہے تھے بوڑھی عورت ملی نا جانتے ہوئے کہ یہی تو امیرَالمومنین عمر رضی اللہ عنہ ہیں شکوہ شکائیت کرنے لگی کہ عمر میرے حال کی خبر نہیں رکھتا.آپ نے کہا اماں جی عمر کو اتنی بڑی سلطنت میں آپکے مسائل کا علم کیسے ہوگا؟اگر آپ خود نہیں بتائیں گی.. بوڑھی عورت نے تاریخی جواب دی کہا کہ عمر کو چاہیے اتنی ہی زمیں پر حکمرانی کرے اور اتنے ہی لوگوں کا خلیفیہ بنے جنکی خبر رکھ سکے.آپ کا دل ہِل کے رہ گیا اور فوراً خبر گیری کی مہم تیز تر کردی.عدل کیسے قائم ہوتا منصف/ حکمران کیسے ہوتے ہیں تو کوئ عمرِ فاروق کو دیکھے فرماتے "قوم کا سچا حکمران قوم کا خادم ہوتا ہے”.راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر پہرا دیتے.خوفِ خدا اور اقتدار کی جواب دہی کا ڈر اسقدر کہ فرماتے اگر دریائے فرات کے کنارے عمر کی خلافت میں ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر بارگاہِ الہی میں جواب دہ ہو گا. اس ایک بات سے وطنِ عزیز کے بوسیدہ نظامِ عدل کی تمام تر وجہ سمجھ آجاتی ہے کہ عمرِ فاروق کتے کی جان کو بھی سراسرا صرف اور صرف اپنی ذمہ داری قرار دیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ہر روز سینکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع پر محظ رسمی, مذمتی تقاریر اور کبھی نظام کو موردِ الزام ٹھہرا کہ فارغ ہو جائیں. نظام حکمران نے درست کرنا ہے بروزِ قیامت ہرنگہبان/حکمران سے سے ہی رعایا کے حقوق کی جواب دہی ہو گی.”فاروقی عدل ” وقت کی ضرورت ہے. حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ حکمرانی کا مطلب عوام کی خدمت اور منصفانہ نظام کا قیام ہے.اقتدار کو مسندِ عیاشی سمھجنے اور دن رات صرف سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اصل ذمہ داری کی کی طرف آنا ہو گا جو کہ جو کہ رعایا کے جان و مال کا تحفظ اور منصفانہ معشرے کا قیام ہے.یہی پاکستان کی معاشی ترقی اور ہر میدان میں عروج کا راز ہو گا کیونکہ معاشرے عدل پر پھلتے پھولتے اور سپر پاور بنتے ہیں.جس وطن میں مظلوموں, بے بسوں کی آہیں ہوں.طاقتور کے لیے معافی اور بے بس اور چھوٹے لوگوں کے لیے سزا ہو. وہاں لاکھ کوئ ایک کے بعد ایک نام نہاد بہترین حکمران بدلے.. معاشی ترقی کے لیے بہترین سے بہترین پالسیز /منصوبے بنیں عدل سے روگردانی کرنے والے معاشروں کا مقدرصرف تباہی ہے.آج بھی نظامِ مصطفیﷺ کی روشنی میں مکمل اسلامی سزاوؤں کا نفاذ ہو,حکمران حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلیں تو یہ معاشرہ جنگل بننے سے بچ جائے.اور عجب نہیں کہ دنیا فاروقی عدل اور امتِ مسلمہ کی کھوئ ہوئ شان و شوکت ایک بار پھر دیکھے.
@SMA___23