مزید دیکھیں

مقبول

برطانوی ہائی کمشنر کی علی امین گنڈاپور سے ملاقات

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے پاکستان...

امیر حمزہ بابا شینواری کی عالمی اور ملکی سیاست پر گہری نظر

امیر حمزہ بابا شینواری کی عالمی اور ملکی سیاست...

عدالت نے 31 مارچ اور 3 اپریل کے اجلاس کی کارروائی کے منٹس طلب کرلیے

سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کرہ تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے خلاف قرار دے کر مسترد کرنے کی رولنگ پر سماعت شروع ہوگئی ہے۔

باغی ٹی وی : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی لارجر بینچ اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔

گزشتہ روز ہوئی سماعت میں سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی جانب سے اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

سماعت کے آغاز میں درخواست گزاروں میں سے ایک خاتون نے روسٹرم پر آکر کہا کہ امریکا میں تعینات رہنے والے سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔

چیف جسٹس نے خواتین درخواست گزاروں کو بات کرنے روکتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو سنیں گے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے دلائل کے آغاز میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا ہے کہ تین ماہ میں انتخابات ممکن نہیں، کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آ جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا مؤقف سن کر دیں گے۔

رضا ربانی نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنٰی حاصل ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے، سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ سیکریٹریٹ کوموشن جمع ہونے کے باوجود ممبرز کو نوٹس جاری کرنے چاہیے ،جمع کرائی گئی ریکیوزیشن پر14دن میں اجلاسں بلانا تھا جو نہیں بلایا گیا، یہ بدنیتی ہے، 3 اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی تو فواد چوہدری اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر خط اور بیرونی سازش لے آئے جبکہ یہ جز اجلاس کے ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھا۔

رضا ربانی نے کہا کہ 25مارچ سے 3 اپریل تک اجلاس بلا کر جس طرح کارروائی چلائی گئی یہ بدنیتی ہے جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے جو ہائبرڈ سسٹم کے تحت لگایا گیا سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے 28مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی، اسپیکر کی رولنگ ماورائے آئین نہیں ہو سکتی تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر ختم نہیں کی جاسکتی، آرٹیکل 95 کے تحت ووٹنگ کا عمل ضروری تھا۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکلز 6 کا حوالہ دیا ہے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے جاری کردہ نوٹس کے بعد ووٹنگ ضروری ہے، ووٹنگ آئینی کمانڈ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے تحریری دلائل میں لکھا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ درست تھی-

رضا ربانی نے کہا کہ غلطی سے ٹائپ ہو گیا ہوگا،معذرت خواہ ہوں،ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اسمبلی رولز اور آئین کے منافی ہے،تحریک پیش ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں کیا جاسکتا، 28مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر کارروائی ملتوی کر دی گئی،ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ڈپٹی ا سپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کرینگے-

رضا ربانی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ڈپٹی ا سپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ ،ڈپٹی اسپیکر نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر موثر کر دیا،اسمبلی توڑنے کی سمری پرصدر نے عجلت میں دستخط کیے صدر نے سمری واپس بھیج کر اعتماد کے ووٹ لینے کا کہنا تھاالیکشن کمیشن کہہ چکا ہے کہ وہ اس وقت الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ،کیا اسپیکر عدالتی فائڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے وزیر اعظم نے اپنے بیان میں تین آپشن کی بات کی،تین آپشن والی بات کی اسٹبلشمنٹ نےتردید کی-

رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے ڈپٹی اسپیکر کا اپوزیشن اراکین کو غدار قرار دینا غلط تھا، ڈپٹی اسپیکر نے آئین کے تحت کارروائی نہیں بڑھائی، اسپیکر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی تھی جس کے بعد اسپیکر کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں ڈپٹی اسپیکر ماسوائے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے علاوہ کوئی رولنگ نہیں دے سکتا تھا، اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی، اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا پابند تھااسکے علاوہ جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ آرٹیکل ووٹنگ کا وقت فراہم کرتا ہے، تین سے سات روز میں ووٹنگ کرانا ہوتی ہے البتہ وزیراعظم مستعفی ہوجائے تو پھر تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر ہوجاتی ہے، بصورت دیگر کوئی اور آپشن تھا ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اگر اکثریت کھو رہے ہیں تو انہیں اعتماد کا ووٹ لیناہوتا ہے، آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد کی کارروائی ہوتی ہے، تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا، حتٰی کہ ووٹنگ کا عمل مکمل کیے بغیر اسمبلی کا اجلاس بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔

رضا ربانی نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت ا سپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے،نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے اور عدالت ا سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کرے-

سپریم کور ٹ میں رضا ربانی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رضا ربانی شکریہ آپ کے دلائل بہت اچھے تھے-

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان کو جسٹس جمال خان مندو خیل نے ہدایت کی کہ جلد از جلد دلائل دیں انہوں نے کہا کہ وکلا جلدی دلائل مکمل کریں تاکہ فیصلہ دیا جاسکے-

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق ون کے تحت عدم اعتماد قرار داد جمع ہوئی،عدم اعتماد کی تحریک پر 152 ارکان کے دستخط ہے-

وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 31 مارچ اور 3 اپریل کے اجلاس کی کارروائی کے منٹس طلب کرلیے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نعیم بخاری اسپیکر کے وکیل ہیں، منٹس منگوا لیں،

مخدوم علی خان نے کہا کہ 28مارچ کو قرارداد پیش کرنے کے معاملے پر کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا یہ پروسیجرل ایشو نہیں بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے ،آرٹیکل 95 کے طریقہ کار کو نظر انداز کیا گیا اکثریت کھو نے کے بعد یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیراعظم رہیں،-

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں-

مخدوم علی خان نے کہا کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں-

آئین اورقوائد و ضوابط کیا کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو تو کیا کیا جائے جسٹس منیب اختر کا مکالمہ

قوائد وضوابط آئین کے ماتحت ہوتے ہیں عدالت کے کئی فیصلے موجود ہیں مخدوم علی خان کا جواب

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک بار عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوجائے تو پھر رولز اپنا کام شروع کرتے ہیں آئین کے مطابق 7دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے انہوں نے استفسار کیا کہ اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟

قبل ازیں پہلی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیے تھے۔