اللہ تعالی نے انسان کی نسل بڑھانے کا ایک طریقہ رائج کیا ہے جو سب کو پتہ ہے مگر اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی اماں جی حواء کو اس طریقے سے ہٹ کر بنایا اور ان سے بنی نوع انسان کی افزائش کا عمل شروع ہوا جس پر ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ اب موجودہ شریعت میں سگے بہن بھائیوں کا نکاح جائز نہیں جبکہ آدم علیہ السلام کی اولادوں کا آپس میں نکاح کیا گیا ہے جو کہ قابل اعتراض ہے
ان کے اعتراض کا جواب ہے کہ کیا تم بتا سکتے ہو کہ پہلے دودھ بنا تھا کہ دہی؟
میں قرآن سے بھی دلائل دونگا ان شاءاللہ
قرآن راہ ہدایت ہے علم و عقل والوں کیلئے چونکہ ملحدین دنیا کے سب سے کم عقل ترین اور ناپختہ ذہن لوگ ہوتے ہیں سو ان کے لئے جیسے کسی کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے حروف تہجی کا سکھایا جانا لازم ہے ایسے ہی ان ملحدین کو دنیاوی مثالوں سے سمجھایا جانا بھی لازم ہے
یقیناً ہر بندہ اس بات کا ہرگز شعور نہیں رکھتا کہ پہلے دہی بنی کہ دودھ جب دہی نا تھی تو دودھ کی دہی کیسے بنی ؟
ہمارے ہاں جب کبھی دہی میسر نا ہو تو دودھ کی دہی بنانے کیلئے کھٹے کا بھی استعمال کیا جاتا ہے
ہر انسان جانتا ہے کہ دودھ کو محفوظ رکھنے کیلئے گرمی و دہی سے بچایا جاتا ہے تاکہ دودھ خراب نا ہو سکے اگر دودھ کو دہی یا زیادہ گرمی لگ جائے تو دودھ پھٹ جاتا ہے جس کی وجہ دہی میں موجود بیکٹیریا کا ہونا ہے مگر جب اسی دودھ کی دہی بنانی ہوتی ہے
تو پھر دودھ کو دہی لگانا لازم ہوتا ہے اور گرمائش دینا بھی تاکہ دہی بن سکے اور دہی کی افزائش میں اضافہ ہو اب جب دہی بن گئی تو پھر سابقہ بات کی طرح دہی لگانے کیلئے کھٹے کی ہر گز ضرورت نہیں دہی بنانے کیلئے تھوڑی سی دہی بچا کر رکھی جاتی ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ہماری فریج میں تھوڑی سی دہی بطور جاگ لگانے کیلئے رکھی جاتی ہے تاکہ بوقت ضرورت اس سے مذید دہی بنائی جائے
بات واضع روشن ہے کہ آدم علیہ السلام و اماں جی حواء علیہ السلام دنیا پر موجود واحد انسان تھے جن سے بنی نوعِ انسان کی افزائش بڑھانا مقصود تھا سو اس لئے کچھ عرصہ آدم علیہ السلام کے ہاں ہونے والے بیٹے بیٹیوں کی شادی کرنا لازم تھا جب ان کی اولاد کا سلسلہ بڑھ گیا تو اس سلسلہ کو موقؤف کر دیا گیا
اب میں قرآن سے اس کی مثال پیش کرتا ہوں
آدم علیہ السلام کے ہاں جو بھی بیٹا ہوتا تواس کے ساتھ بیٹی ضرور پیدا ہوتی تو اس بچی کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ دوسرے بچے کے ساتھ پیدا ہونے والی بچی سے شادی کرتا ۔ تفسیر ابن کثير سورۃ المائدۃ آیۃ نمبر ( 27 )
بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے لیے یہ مشروع کیا تھا کہ وہ اپنی اولاد میں سے بیٹی اور بیٹے کی آپس میں شادی کردیں اس لیے یہ حالات کی ضرورت تھی ، لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کے ہردفع ایک بیٹا اورایک بیٹی اکٹھے پیدا ہوتے تھے تو اس طرح وہ ان کے ساتھ شادی کرتے جو ان کے علاوہ دوسری دفعہ پیدا ہوتے تھے پھر جب افزائش نسل کافی بڑھ گئی تو یہ نظام حکم ربی سے منع ہو گیا
کیونکہ ہم انسان ہر بات نہیں جانتے
اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ : ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” تو وہ کہنے لگے۔”کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔جبکہ ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس بھی کر رہے ہیں۔”اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ ”جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔” (اس کے بعد) اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے اسماء (نام یا صفات و خواص) سکھا دیئے۔ پھر ان اشیاء کو فرشتوں کے روبرو پیش کر کے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو”۔ فرشتے کہنے لگے نقص سے پاک تو تیری ہی ذات ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہی
سورہ البقرہ آیت 30 تا 38
فرمان باری تعالی ہے کہ
یہ ہرگز ایسی بات نہیں جو گھڑ لی جائے اور لیکن اس کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے ہے اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان رکھتے ہیں ۔
قرآن ، سورت یوسف ، آیت نمبر 111
یہ قرآن راہ ہدایت ہے ایمان اور عقل والوں کیلئے کیونکہ جن کے دل زنگ آلو ہو گئے اور وہ ہدایت یاب ہونا ہی نہیں چاہتے ان سے اللہ تعالی یوں مخاطب ہیں
ھر اگر وہ تیری بات قبول نہ کریں تو جان لے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
قرآن ، سورت القصص، آیت نمبر 50
اللہ تعالی ہم سب کو حق سچ لکھنے سمجھنے بولنے کی توفیق عطا فرمائے آمین