قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے
"جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے.”
سورة العمران 134
ہمارے ہاں عدم برداشت کا کلچر فروغ پا چکا ہے ۔آپ سڑک پر دیکھتے ہیں کہ گاڑی والا موٹرسائیکل والے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ذرا آپ اس کی شاہی سواری کے راستے میں حائل ہو جائیں تو فوری ہارن بجا کر دور ہٹنے کا کہا جائے گا پھر اگر ذرا تاخیر ہوئی تو گاڑی کے اندر سے ہی صلواتیں سنانا شروع کردیں گےاور خواہش ہوگی کے کچل کر آگے نکل جائیں اور اسی طرح یہی سلوک موٹرسائیکل والا رکشہ یا گدھا گاڑی والے کے ساتھ کرتا ہے
ذرا سی انیس بیس پر سڑک پر دست و گریباں افراد اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
عدم برداشت کی یہ بیماری صرف عام آدمی تک محدود نہیں بلکہ ہمارے سیاستدانوں اور ایوانوں تک سرائیت کر چکی ہے جس کا مظاہرہ ہم نے بجٹ سیشن میں کیا اور اب آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران جلسوں میں ایک دوسرے کو یہودی ایجنٹ اور دیگر القابات سے نوازا گیا ۔سیاسی اختلافات کی یہ جنگ کارکنوں کے درمیان سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کو خوب گالیاں دے کر لڑ جاتی ہے ۔
یہی حال عام گلی محلوں کا ہے معمولی سی بات پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور دشمنی کا یہ سلسلہ کئ نسلوں تک چلتارہتا ہےاور خاندان کے خاندان ختم ہوجاتے ہیں ۔
یہ عدم برداشت کا کلچر ایک دم سے ہمارے معاشرے میں نہیں آیا ایک عرصہ تک پنجابی فلموں اور ہمسایہ ملک کی مادر پدر آزاد ثقافتی یلغار کا شاخسانہ ہے ۔
ہمارے نظام تعلیم نے خوب ترقی کی لیکن تربیت اور کردار سازی کے شعبہ میں بری طرح ناکام رہا۔ اب حالات یہ ہیں کہ بارہویں جماعت کے چند طلباء نے لاہور میں پیپر بورڈ کے دفتر لے کر جانے والے استاد سےپرچوں کا بنڈل بندوق کے زور پر چھین کرآگ لگا دی اور استاد کی موٹرسائیکل بھی نظر آتش کردی۔
میڈیا کا ایک کردار طلباء کو امتحانات ملتوی کروانے پر اکساتا رہا اور ریاست اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردار سازی پر بھی توجہ دی جائے رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کی جائے لوگوں کو معاف کرنا سیکھیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو سر پر سوار کرلینے سے آپ مسلسل ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنی ہی صحت کا نقصان کر بیٹھتےہیں ۔
میں نے سعودی عرب قیام کے دوران کا عجیب واقعہ دیکھا ایک شہری کی گاڑی دوسری گاڑی سے ٹکرا گئ دونوں گاڑی سے نیچے اترے میں نے حسب دستور سوچا یہ دست و گریباں ہونگے اور سڑک پر تماشا ہوگا لیکن کیا دیکھتا ہوں جس کی غلطی تھی اس نے سلام کیا اور درود پڑھا اللہم صلی وسلم علی نبینا محمد اتنا کہنا تھا کہ دوسرا مسکرایا گلے ملے اور معاملہ ختم۔
غصہ انسان کی عقل کا دشمن ہے غصے کی حالت میں انسان وہ کچھ کر جاتا ہے کہ بعد میں ساری عمر پچھتاوا رہ جاتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ملاحظہ ہو اور عمل کرکے اپنی زندگیوں کو خوبصورت اور پرسکون بنائیں
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔”
متفقہ علیہ ۔

@Educarepak

Shares: