
فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرے ایک تو یہ بتایا ہے کہ گزشتہ رات وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان طویل نشست ہوئی۔ پھر یہ بھی کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی میں اتھارٹی وزیر اعظم ہیں۔
ہیں تو یہ وزیر اطلاعات مگر کم ازکم اپنے الفاظ کا چناؤ ہی درست کر لیں ۔ یہ فواد چوہدری جو قوم کو بتا رہے تھے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے لئے قانونی طریقہ اپنایا جائے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں غیر قانونی تعیناتی ہوتی تھی ۔
پھر گزشتہ روز جو عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان طویل نشست ہوئی ہے ۔ تو یقیقنا سول و فوجی تعلقات میں مسائل تھے تو ہوئی ہے ۔
حکومت نے کوشش کرکے دیکھ لی ہے ۔ مگر ان کی ایک نہیں چلی ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم ہی ہوں گے۔
وہ آئندہ ہفتے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے، نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹی فکیشن اب جلد جاری کردیا جائے گا۔ بات کا بتنگڑ بنانا اس حکومت سے کوئی سیکھے ۔
یہ جو فواد چوہدری نے آج ڈی جی آئی ایس آئی والے معاملے کو لے کر میڈیا پر بار بارالزام لگایا ہے کہ پراپیگنڈہ کرنے والے دم توڑ جائیں گے۔ وزیراعظم،آرمی چیف میں اتفاق رائے ہے ۔ تو پراپیگنڈہ کرنا تو اس حکومت کا شیوہ ہے ۔
کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹ کبھی نہ کبھی ظاہر ہوکر رہتا ہے اور سچ اپنا آپ دکھاتا ہے۔
اس کا حل بھی Goebbels بتا گیا کہ جھوٹ کو مضبوط بنانے کےلیے پروپیگنڈے کا ہتھیار استعمال کرو۔ پروپیگنڈہ کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ خاتمے کا ہتھیار ضرور ہے۔ اس لیے اگر جھوٹ پکڑا جائے تو گالم گلوچ سے اسے دباؤ اور پروپیگنڈہ سے پکڑنے والے پر ہی غلط خبر کا الزام لگا دو اور اپنے کی بورڈ اپنی مرضی کی دھن بجا کر بھنگڑے ڈالو۔
جیسے پٹرول کی قیمت پاکستان میں پورے خطے کے ملکوں سے کم ہے۔ معیشت ترقی کرے تو قرضے بڑھتے ہیں۔
یہ جو پچھلے تقریباً ایک ہفتہ سے پوری قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو مزہ آتا ہے ۔ نئے سے نئے مسائل اور ایشوز پیدا کرکے ۔
برطانیہ کی University of Bathاور جرمنی کی University of Konstanzکے محققین کی ایک نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ وہ سیاست دان جو زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کےلیے کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے اوراس تحقیق کو سچ ثابت کرنے کےلیے حکومت کے وزیروں اور مشیروں کی مثال ہی کافی ہے۔ باقی آپ لوگ خود بھی سمجھدار ہیں۔
ویسے اس حکومت کا کوئی کام سیدھے طریقے سے نہیں ہوا ہے ۔ ہر اہم تعیناتی اور مسئلے پر انھوں نے ہیڈ لائنز ہی بنوائی ہیں ۔ پنجاب کا حال دیکھ لیں ایسی اکھاڑ پچھاڑ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی صرف بیوروکریسی میں ہی نہیں ۔ وزارتیں بھی روز بدلتی ہیں ۔ نہیں بدلتا تو صرف وزیر اعلی پنجاب نہیں بدلتا ۔ کچھ نہ سہی ۔ پی ٹی آئی تو اپنے محسنوں تک کو نہیں سنبھال سکی ہے ۔
اس بات کی توثیق تو جہانگیر ترین نے ایک کل اور ایک آج بیان دے کر ۔۔۔ کر دیی ہے ۔ کل تو مہنگائی پر انھوں نے بغیر لگی لپٹی کے کہہ دیا تھا کہ حکومتی نااہلی ہے اور آج انھوں نے کہا ہے کہ الیکشن میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی لیکن کچھ سیٹیں کم ہوئیں تو پھر آپ کو پتہ ہےکہ جہاز چلا۔ ن لیگ سے پی ٹی آئی کی 8
سیٹیں کم تھیں۔ خان صاحب کا پیغام آیا کہ پنجاب کے بغیر حکومت کا فائدہ نہیں، جس پر میں نےکہا، فکر نہ کریں۔
اب جہانگیر ترین کی حالت دیکھ لیں ۔ ایک کے بعد ایک وار ان پر کیا جاتا ہے ۔ رہی بات احسانوں کی تو جو احسان جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی پر اور عمران خان پر کیے ہیں اس سے ایک دنیا واقف ہے ۔
پھر الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی اس حکومت کا پنگاہے ۔ نئے نیب چیئرمین کی تعیناتی والی قسط ابھی جاری ہے ۔
ڈاکٹر اے کیو خان کا جنازہ جیسے ہینڈل کیا گیا اور وزیر اعظم عمران خان جانتے بوجھتے ہوئے، چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہوتے ہوئے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے ۔ اور اس کے بعد عمران خان کے جنازہ میں شرکت نہ کرنے پر وزیروں ۔ مشیروں اور سوشل میڈیا پر موجود پنٹروں نے جو بھونڈی توجیحات دیں وہ محسن پاکستان کا مذاق اڑانے کے مترادف تھیں ۔
پی ٹی آئی جو پاکستان کی تاریخ 1992ء سے شروع کرتی ہے۔ یہ ایک جانب اس ملک کو ریاست مدینہ بھی دیکھنا چاہتی ہے اور جنسی بے راہ روی، شراب کو شہد میں بدلنا ذاتی مسئلہ بھی قرار دیتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ جوجس چیز کا شوقین ہوتا ہے وہی اس کے انجام کا سبب بنتی ہے۔
میں آپکو بتاوں جب اقتدار ملتا ہے تو جو اسکا نشہ ہوتا ہے اس نشے میں لوگ بہت کچھ کر جاتے ہیں۔
حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ اپنی خواہشات کو کبھی بھی بے لگام مت چھوڑیں کیونکہ یہ اگر باغی ہو جائیں تو حرام حلال اور جائزو ناجائز کچھ بھی نہیں دیکھتیں۔ خواہشات کو لگام دینےوالے ہی عظیم لوگ ہوتے ہیں۔
بس اس سے زیادہ بہتر مشورہ میں وزیراعظم عمران خان ، ان کے وزیروں اور اس حکومت کو نہیں دے سکتا ہوں ۔ باقی کرنی انھوں نے اپنی ہی ہے کیونکہ نشہ کسی چیز کا ہو یا اقتدار کا ۔۔۔ نقصان ہی دیتا ہے ۔
اپوزیشن کی بات کی جائے تو مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کی ملاقات کا جو فوری مطالبہ سامنے آیا وہ فی الفور نئے انتخابات کے انعقادکا ہے۔ ویسے تو یہ مطالبہ 2018ء کے انتخابات کی کے بعد سے ہی کیا جانے لگا تھا، مگر اب نجانے اس کی فوری ضرورت کیوں پیش آئی۔ سوال تو یہ بھی ہے ایسا مطالبہ کیا کس سے جا رہا ہے حکومت سے تو ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس بارے میں کچھ سننے کو تیار نہیں،
الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کرا نہیں سکتا۔ رہ جاتی ہے بات اسٹیبلشمنٹ کی۔ جس میں فوج بھی سب سے طاقتور فریق کے طور پر شامل ہوتی ہے۔ تو کیا یہ مطالبہ اسٹیبلشمنٹ سے کیا گیا ہے؟ کیا اس موقع پر کہ جب حکومت اپنے چوتھے سال کی مدت پوری کرنے جا رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ یہ رسک لے گی کہ چلتے نظام کو روک دے اور ایک نیا پنڈورا بکس کھول دے۔
اتنے پیچیدہ معاملات کے ہوتے مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف نے اپنی ملاقات میں جو یہ مطالبہ کیا ہے وہ بڑی حد تک ایک سیاسی پھلجھڑی نظر آتی ہے، جس کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ان طاقتوں پر بھی دباؤ ڈالنا ہے جو حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں اور جنہیں اپوزیشن شروع دن سے اس حکومت کو لانے والی قوتیں کہتی رہی ہے۔
سوال یہ ہے انتخابی اصلاحات کے بغیر اگر اسی نظام کے تحت انتخابات ہوئے تو دھاندلی کے الزامات تو لگیں گے اب تک جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں سب کے نتائج پر انگلیاں اٹھائی گئی ہیں۔ ایک انتخابی حلقے میں تو انتخابی عمل کو کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے انتخابات بھی کرائے گئے۔ حالت یہ ہے اپوزیشن کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور حکومت اپوزیشن کو قریب نہیں پھٹکنے دیتی۔
دنیا اس معاملے میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، مگر ہم ابھی تک اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں جب ہم اپنی جمہوریت کی پہلی اینٹ ہی سیدھی نہیں رکھ سکے تو عمارت کی مضبوطی کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
اپوزیشن کو ایک ٹپ دے دوں کہ اس وقت بلوچستان میں وزیر اعلیٰ جام کمال کو ہٹانے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کر رہا کیونکہ یہ ایک آئینی طریقہ ہے۔ عمران خان کو ہٹانے کے لئے آج تک اپوزیشن نے یہ آئینی طریقہ استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ پیپلزپارٹی اس حوالے سے پیشکش بھی کرتی رہی ہے ماورائے آئین مطالبات کے ذریعے حکومت کو نکالنے اور نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کتنا قابل عمل ہے۔
پھر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ہر چھ ماہ بعد لانگ مارچ کی دھمکی دینے کی بجائے بہتر ہے یکسوئی کے ساتھ کوئی لائحہ عمل بنائیں۔
مہنگائی اور حکومتی ناکامیوں کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ درست ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوام کی بھلائی بھی ہے اور ان کی دلچسپی بھی نئے انتخابات سے کچھ نہیں ہونے والا۔ سوائے اس اچھی روایت کو ختم کرنا جو پچھلے تیرہ برسوں میں حکومتوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے حوالے سے قائم ہو چکی ہے۔ جہاں ساڑھے تین سال گزرنے کو ہیں وہاں باقی مدت بھی پوری ہونے دیں تاکہ عوام کو فیصلہ کرنے میں آسانی رہے انہوں نے جنہیں منتخب کیا تھا۔ وہ اپنی آئینی مدت کے دوران کیا گل کھلاتے رہے ہاں سیاسی جماعتوں کو اس عرصے کے دوران عوام کی آواز بن کر زندہ رہنا چاہئے۔
گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی لاہور نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں ایک ریلی نکالی، ایک جمہوری دور میں یہی وہ دباؤ ہوتا ہے جو حکومت پر ڈالا جاتا ہے۔
آخر میں بس ایک بات بتا دوں ۔ پچیس ہزار ارب قرض نے ملک کا بچہ بچہ مقروض کر دیا تھا تو ہم نے قرض اتار کر چالیس ہزار ارب کردیا اور اب ملک کا بچہ بچہ خوشحال ہے۔
اس لیے یاد رکھیں ۔ اقتدار میں ہر نیا آنے والا اپنے آپ کو صادق و امین اور قابل منوانے کےلیے اپنے سے پہلے والوں پر کرپشن، چوری اور نااہلی کا الزام ضرور لگاتا ہے اور دھوکا کھائے ہوئے عوام کو پھر سے دھوکا کھانے کے لیے تیار کرتا ہے۔ واہ واہ بھی سمیٹتا ہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتا ہے۔
اقتدار کا نشہ اور عمران خان۔ تحریر۔ نوید شیخ