عدلیہ،اداروں پر تنقید.حب الوطنی کبھی نہیں ہو سکتی،:تجزیہ، شہزاد قریشی
تبدیلی آ گئی سے لے کر انقلاب آرہا ہے تک قانون کی حکمرانی کا نعرہ لگانے والے عمران خان کو کون سمجھائے تبدیلی قربانی مانگتی ہے اور سیاست میں ہمیشہ قربانی عوام نے دی ہے ۔ بلاشبہ اس وقت عمران خان نوجوانوں میں مقبول ہیں بہت ہی بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور عمران خان اپنے آپ کو سقراط پیش کرنے کی ناکام کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے آ پکو عصر حاضر کا سقراط سمجھنے والے جانتے ہیں کہ سقراط نے مشروب اجل کیوں پیا تھا؟ وہ بے گناہ تھا مگر مشروب اجل کو منہ سے لگا لینے کا مقصد اس وقت کے عدالتی فیصلے کو قبول اور سرخم تسلیم کرنے کا مقصد ایک ادارے کی عزت اور وقار کو برقرار رکھنا تھا۔ مگر ہمارے آج کے سقراط جلسوں، چوراہوں، گلی محلوں میں اپنے اداروں پر کھلے عام تنقید کرتے ہیں۔ وہ پاک فوج ہو، عدلیہ ہو یا پھر صحافی، صحافیوں کو بھرے جلسے میں لفافہ صحافی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کیا اسے قومی فریضہ کہا جاتا ہے ؟ کسی محب وطن پاکستانی کو میر جعفر اور میر صادق کے نام سے جلسوں میں پکارا جاتا ہے نوجوان نسل کے ذہنوں میں کیا بھرا جا رہا ہے؟ نوجوان نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں کیا یہ نوجوان نسل کی تربیت ہو رہی ہے؟ہم ایک ایٹمی ملک بھی ہیں اور بہادر قوم بھی اور ہماری فوجی طاقت ملک کے دفاع اور قوم کے دفاع سب کچھ لٹا سکتی ہے کیا ہماری فوج یا بہادر قوم کسی میرجعفر یا میر صادق کو برداشت کر سکتی ہے؟ جو اس ملک و قوم کے لئے خطرہ ہو ہیں ایسا ہرگز نہیں۔
ملک میں انقلاب کے دلفریب نعرے لگائے جا رہے ہیں کیا انقلاب کی حقیقت جانتے ہیں انقلاب کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتا۔ ہر چند کے موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی لیکن ہرگز ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ میر جعفر یا میر صادق ہیں یا انہیں ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا جائے۔ سیاستدان ایک دوسرے کو غدار، میر جعفر میر صادق، دہشت گرد، ملک کے لئے اگر ایک دوسرے کو خطرہ قرار دیتے رہے تو پھر اس ملک کی عوام اور جمہوریت کا کیا ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت زیادہ وسائل ہیں ہم اگر مقروض اور بدحال ہیں تو ہماری بدحالی بدانتظامی کی وجہ سے ہے ۔ اگر سیاستدانوں نے اپنی پالیسیاں نہ بدلیں پھر ہمیں بدل دیا جائے گا ابھی بھی وقت اس وطن عزیز کی اور قوم کی خاطر جمہوریت کو مستحکم کرنے کی خاطر ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکالنے کی خاطر، ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی خاطر اپنے آپ کو بدل لیں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
ارد گرد ممالک کی پالیسیاں بدل رہی ہیں ہم ایک دوسرے کو غدار سکیورٹی رسک اور دہشت گرد قرار دے کر کون سا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں؟