اسلام آباد: پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ہم آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں اور اسے ہر حال میں برقرار رکھنا چاہیے۔ انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ روز پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث سن رہے تھے لیکن خاموش رہے اور بل پیش ہونے کے بعد چلے گئے تھے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں عدلیہ پر تنقید کی گئی اور الزامات لگائے گئے، جو ایک جج کے فیصلے کو روکنے کے مقصد سے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے غیر آئینی اقدام پر خاموشی اختیار کی، جو کہ ان کی ذمہ داری کے خلاف ہے۔ اچکزئی نے خبردار کیا کہ اس قسم کے اقدامات آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے عدلیہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اتنی بری نہیں جتنی کہ تنقید کی جا رہی ہے، اور ہمیں عدلیہ کے خلاف اتنی دور تک نہیں جانا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کئی ججز ایسے بھی ہیں جنہوں نے مارشل لاء ادوار میں حق کا علم بلند کیا۔ محمود خان اچکزئی نے خاص طور پر ایسے ججز کا ذکر کیا جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا اور انہوں نے سندھ کے جج کا حوالہ دیا جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں اختلاف کیا تھا۔محمود خان اچکزئی نے بھٹو کی پھانسی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کے کیس میں بلوچستان کے جج نے بھی اختلاف کیا تھا، اور تین کورٹس کے اختلاف کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جن قوتوں نے بھٹو کو پھانسی دی، ان کا کوئی ذکر نہیں کرتا اور ان پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایوان کے کسٹوڈین ہیں اور انہیں آئینی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے تھی، لیکن انہوں نے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات پر خاموشی اختیار کی۔اس موقع پر انہوں نے سینیٹر قاسم رونجھو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہیں ججز نے اٹھایا تھا۔ محمود خان اچکزئی نے سوال اٹھایا کہ جن لوگوں نے قاسم رونجھو کو اٹھایا، ان کی طرف کوئی انگلی کیوں نہیں اٹھاتا؟ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا تاکہ جمہوری نظام کو مستحکم کیا جا سکے۔ محمود خان اچکزئی نے بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں رہا کیا جانا چاہیے تھا اور تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خدا ہمارے ملک کی خیر کرے اور دعا کی کہ ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی برقرار رہے۔

Shares: