اڈیالہ جیل ،قیدیوں کی گنجائش 2 ہزار جبکہ قید افراد کی تعداد 6 ہزار سے بھی زائد

v
0
38
jail01

ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے چیئرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال کی سربراہی میں سینٹرل اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔ اڈیالہ جیل میں قید عام قیدیوں کے وارڈز، خواتین وارڈز، بچوں کے وارڈ کے علاوہ اڈیالہ جیل میں قیدیوں کو دی جانے والی سہولیات بشمول کچن، کھانے کا معیار، صفائی،رہن سہن، صحت کی سہولیات اور قائم میڈیکل سینٹر میں ڈاکٹروں کی تعداد، قیدیوں کو دی جانے والی فنی تربیت، قیدیوں کے اہلحہ خانہ سے ان کی ملاقات کے طریقہ کار، اڈیالہ جیل میں قیدیوں کے لئے گنجائش اور ان کی موجودہ تعداد کے علاوہ انتظامیہ کو درپیش چیلنجز کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ قیدیوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے ان کی موثر تربیت کرکے انہیں معاشرے کا کار آمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے چاروں صوبوں کے آئی جیز کی مشاورت سے فیصلہ کیا تھاکہ یہ قائمہ کمیٹی ملک بھر میں قائم جیلوں کا دورہ کر کے قیدیوں کی حالت زار اور تمام امور کا جائزہ لے گی اس تجویز کو چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے منظور کیا اور یہ دورہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ قائمہ کمیٹی جلد ہی لاہوراور ساہیوال جیلوں کا دورہ بھی کرے گی۔ ساہیوال جیل رقبے کے لحاظ سے ایشیاء کی سب سے بڑی جیل ہے۔ قائمہ کمیٹی کراچی،کوئٹہ اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں قائم جیلوں کا دورہ بھی کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ ان تمام محرکات کا مقصد ایسی تجاویز مرتب کرنی ہوں گی جن پر عملدرآمد کر کے قیدیوں اور انتظامیہ کو درپیش مسائل ہیں ان کے بہتر حل کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد جیل کو جلد سے جلد فعال بنانے کے لئے معاملہ ایوان بالاء میں اٹھایا جائے گا تاکہ اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زائد جو افراد قید ہیں اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کیا جا سکے۔

قائمہ کمیٹی کے نوٹس میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید زیادہ تر قیدیوں کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہے۔ قائمہ کمیٹی سفارش کرے گی کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے قیدیوں کو متعلقہ صوبے کی جیلوں میں منتقل کیاجائے تاکہ لواحقین کو ان سے ملنے میں بھی آسانی ہو۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب میاں فاروق نذیر اور ڈی آئی جی جیل خانہ جات پنجاب عبدالمعروف رانا نے قائمہ کمیٹی کو اڈیالہ جیل کے مختلف بیرکس، کچن و دیگر حصوں کا دورہ کرایا اور قائمہ کمیٹی کو متعلقہ امور کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں تقریبا53936 مجرم قید ہیں۔ جن میں سے 52289 مرد،944 خواتین اور703 کم عمر قیدی قید ہیں۔ 115 قید خواتین کے پاس 133 بچے بھی ہیں۔ خواتین بیرکس کو فی میل سٹاف ڈیل کرتا ہے۔ وہاں پر ڈبل لاک سسٹم ہے۔ تمام خواتین کو رہنے کے لئے لوہے کی چارپائیاں دی جاتی ہیں اور ٹھنڈے پانی کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ خواتین بلاک میں بچوں کے کھیلنے کیلئے کھلونے اور گراؤنڈ بھی موجود ہے اور علیحدہ میڈیکل فی میل سٹاف بھی موجود ہے۔

سینٹرل جیل میں ان قیدیوں کو لایا جاتا ہے جن کی سزا لمبے عرصے کی ہوتی ہے۔ اڈیالہ جیل میں خواتین کے لئے علیحدہ جیل بنانے کیلئے بھی کام ہو رہا ہے اور جلد فیصل آباد اور لاہور میں بھی کام شروع کر دیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ خواتین کے وارڈ میں جانے کے لئے وزیراعظم کو بھی انتظار کرنا پڑا تھا۔ قائمہ کمیٹی کو قیدیوں کی دی جانے والی خوارک کے بارے میں تفصیلی آگاہ کیا گیا کہ ہفتے میں چھ دفعہ چکن دیا جاتا ہے اور کیلریز کے مطابق قیدیوں کا فوڈ پلان بنایا گیا ہے۔ جیل میں کچن کی بہترین حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اڈیالہ جیل میں 6 ہزار قیدیوں کے لئے روٹیاں پکانے والی مشین خریدی جا رہی ہے جو ایک گھنٹے میں چار ہزار روٹیاں پکائے گی۔ اڈیالہ جیل میں قید قیدیوں کی فنی تربیت کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ اراکین کمیٹی نے زور دیا کہ قیدی جو چیزیں تیار کر رہے ہیں ان کو مارکیٹ میں فروخت کر کے قیدیوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں اور ان کے لواحقین کو بھی اس سے فائدہ دیا جائے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں جیلوں میں قید قیدیوں پر تشدد کی کوئی رپورٹ نہیں ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ قیدیوں کو ان کے خاندان والوں سے بات کرنے کیلئے 785 ٹیلی فون بوتھ بنائے گئے ہیں ان کی تعداد1500 کی جائے گی اور4821 قیدیوں کی دیت کے لئے 871 ملین روپے ڈونرز کی مدد سے ادا کیے گئے ہیں۔ مختلف ڈونرز کی مدد سے قیدیوں کو قید خانوں میں معیاری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجاب کی 8 جیلوں کو ماڈل جیل بنانے کیلئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور مختلف بیرکس میں 55 انچ کی ایل ای ڈی بھی فراہم کی گئی ہے اور جیلوں کی صفائی ستھرائی پر اس سال 18 ملین روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی جیل میں کرونا یا ڈینگی کا مریض سامنے نہیں آیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وہ قیدی جو ذہنی بیمارہو جاتے ہیں انہیں مینٹل ہسپتال بھیجتے ہیں۔ ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ وہ تین ماہ کے اندر اس مریض کے حوالے سے رپورٹ فراہم کرے تاکہ ان کے لئے فیصلہ کیا جا سکے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 20 ہزار قیدی فنی تعلیم کے سریٹفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ ایسے کاموں کو تیز کرنے کیلئے موثر قانون سازی عمل میں لائی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ایک قیدی جس کو سزائے موت کی سزا ہوتی ہے اسے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کیلئے کتنا عرصہ لگتا ہے۔ کس کس جیل میں سزائے موت کے قیدی کتنی تعداد میں موجود ہیں کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجاب کی 3 جیلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کر دیا گیا ہے اور 22 کو جلد منتقل کر دیا جائے گا۔ اضافی ملٹی سٹوری بلڈنگ بھی بنائی جائے گی جن پر 548 ملین روپے خرچ ہو نگے۔ قیدی اپنے خاندان سے ہفتے میں ایک دفعہ ملاقات اور ایک دفعہ فون پر بھی کال کر سکتے تھے اب وہ ہفتے میں تین بار کال کر سکیں گے۔ کمیٹی کو بتایا گیاکہ سینٹر ل جیل راولپنڈی 1985 میں 75 ایکٹر پر قائم کی گئی جس میں 2174 قیدیوں کی گنجائش تھی جس میں 6471 قیدی اب قید ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ قتل اور اقدام قتل کے 1568، چوری ڈکیتی کے 1358، منشیات کے 1925، مالی جرائم میں 393، دہشت گردی342 اور دیگر 813 کیسز میں لوگ قید ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیاکہ میڈیکل کے شعبے میں 746 منظور شدہ پوسٹیں ہیں جن میں سے 340 خالی ہیں۔ چیئرمین واراکین کمیٹی نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں کو دی جانے والی سہولیات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ موجودہ انتظامیہ نے قیدیوں کی بہتری کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ قابل تحسین ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ مجرموں کو ملک کا مفید شہری بنایا جائے۔ قائمہ کمیٹی ملک کے مختلف حصوں میں قائم جیل خانہ جات کا دورہ کر کے تمام امور کا جائزہ لے گی۔

قائمہ کمیٹی کے اڈیالہ جیل کے دورے کے دوران سینیٹرز ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند، سیمی ایزدی، مشاہد حسین سید، عرفان الحق صدیقی، فلک ناز، سید وقار مہندی کے علاوہ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب میاں فاروق نذیر، ڈی آئی جی اڈیالہ جیل پنجاب عبدالمعروف رانا، ایس ایس پی سینئر سپرٹینڈینٹ اسد جاوید، سپیشل سیکرٹری ہوم، چیئرمین این سی ایچ آر، سیکرٹری این سی ایچ آراور ڈی جی وزارت انسانی حقوق و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

Leave a reply