افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تقاضے تحریر-سید لعل حسین بُخاری

0
61

افغانستان کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان جو بھی قدم اُٹھاۓ۔
سوچ سمجھ کے اٹھاۓ۔
کوئ بھی فیصلہ کرتے وقت پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھا جاۓ۔
اسکے علاوہ تیل دیکھو،تیل کی دھار دیکھو کے مصداق بین الاقوامی برادری اور خطےکے فیصلوں پر بھی گہری نظر رکھی جاۓ۔
جس طرح طالبان نے پچھلے دور اقتدار سے کچھ سبق سیکھے ہیں،اسی طرح پاکستان بھی اپنے ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوۓ وہ غلطیاں نہ دہراۓ،جو ماضی میں کی گئیں۔جن کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔اربوں کے مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ ہزاروں لوگ شہید بھی ہوۓ۔کسی کی جنگ کو ہمیں مجبورا” اپنی جنگ سمجھ کر لڑنا پڑا کیونکہ اس میں ہمارے بچے شہید ہو رہے تھے/
مرتا کیا نہ کرتا،کے مصداق ہمیں اپنے گلے میں پڑے اس ڈھول کو بجانا پڑا۔
افغانستان کے معاملے میں اب تک پاکستان نے اپنے کارڈز بہتر انداز میں کھیلے ہیں۔
عمران خان کے اس موقف کو دنیا بھر میں زبردست پزیرائ مل رہی ہے،جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل سیاسی ہو گا،عسکری طریقے سے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ رات امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اپنی کانفرنس میں عمران خان کے موقف ہی کو اپنایا۔
عمران خان نے افغانستان کے مسئلے کو اپنے مشاہدات کی نظر سے پرکھا اور پھر
Absolutely not
کہہ کر دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان امریکہ کو پاکستان سے افغانستان پر حملے کے لئے اڈے فراہم نہیں کرے گا۔
امریکہ کی طرف سے اس سیدھے سادھے جواب پر سخت ردعمل بھی آیا،بعض معاملات پر پاکستان پر دباو بھی ڈالا گیا۔جس میں فیٹف کا معاملہ بھی شامل ہے۔جس میں خاطر خواہ پیش رفت کے باوجود پاکستان کو ابھی تک گرے لسٹ میں جان بوجھ کر رکھا جا رہا ہے۔
مگر ابھی تک پاکستان اپنی اسی بات پر ڈٹا ہوا ہے،
ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو اپنی اس ناں کی مزید قیمت بھی چُکانا پڑے۔
قوم کو زہنی طور پر ہر چیز کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ہم پر کچھ پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں،جو ان شاءاللہ پاکستان چین جیسے دوست ملک اوراپنی بہتر حکمت عملی سے برداشت کر لے گا۔
بڑے فیصلوں کی بعض دفعہ بڑی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔
مگر کوئ بھی قیمت ستر ہزار جانوں سے زیادہ بڑی نہیں ہو سکتی۔
جو پچھلی دفعہ ہم نے غلط فیصلوں کی بدولت ادا کی۔
عمران خان حکومت نے اب تک جو بھی فیصلے کئے ہیں،وہ درست ثابت ہوۓ ہیں۔حکومت کے ہر فیصلے میں پاک فوج اسکے ساتھ کھڑی ہے،جو ہماری کامیابی کا ٹرمپ کارڈ ہے۔
افغانستان کی پیچیدہ صورتحال کی نزاکتوں کو نہ سمجھتے ہوے ترک صدر طیب اردوان نے امریکہ کے جانے کے بعد کابل کی حفاظت کی زمہ داری قبول کرنے کی جو غلطی کی۔اسے جلد ہی اسکا ادراک ہو گیا کہ اس قسم کا فیصلہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔
بحرحال خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ترکی نے اپنی اس غلطی کا احساس ہوتے ہی اسکا ازالہ کرتے ہوۓ اپنی پوزیشن کو بیک فُٹ پر کر لیا ہے۔
گزشتہ چوبیس گھنٹے میں طیب اردوان کی عمران خان سے دو بار بات ہو چکی ہے،جو عندیہ ہے اس بات کا کہ افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرتے وقت پاکستان اور ترکی ایک پیج پر ہوں گے۔
پچھلے کچھ گھنٹوں میں جرمنی کی سربراہ اور برطانیہ کے وزیر اعظم کا عمران خان کو افغانستان کی صورتحال پر فون واضح کرتا ہے کہ پاکستان اس وقت اس تنازعے میں کتنا اہم ملک ہے۔
پاکستان میں پچھلے دو دنوں سے جشن کا سا سما ہے۔
افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ کرنے اور سازشیں کرنے والے سابق کابل رجیم کے بڑے بڑے نا سور اس وقت تک راہ فرار اختیار کر چکے ہیں۔
بھارت کی ساری سرمایہ کاری،جو اس نے پاکستان کے خلاف کر رکھی تھی۔ڈُوب چکی ہے۔
بھارت میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کو لیکر اس وقت سوگ کی سی کیفیت ہے۔
انہیں لگ رہا ہے کہ انہوں نے جو گڑھا پاکستان کے لئے کھودا ہے۔وہ اپنی بد نیتی کی وجہ سے خود ہی اس میں گر چکے ہیں۔
افغانستان سے اشرف غنی اور اسکے حواریوں نے اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ بھارت کی زبان بولی۔
وہ اتنے احسان فراموش اور نمک حرام تھے کہ یہاں تک بھول گئے کہ پاکستان کب سے لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کئے ہوۓ ہے،
دیگر کئی احسانات بھلا دئیے گئے،ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ معمول تھا۔
اس سب کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہوتا تھا،اسی لئے ان سب دشمنان پاکستان کی پسپائ پاکستانیوں کے لئے اچھی خبر لے کر آئ ہے۔
طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد امید ہے کہ ہماری افغانستان سے ملحقہ مغربی سرحد محفوظ ہو جاۓ گی۔
اس سرحد پر پاکستان بہت سی قربانیوں کے بعد باڑھ کا کام بھی مکمل کر چکا ہے۔
ماضی میں اس سرحد سے دہشت گردوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ بھی اس باڑھ اور طالبان کے اقتدار کی وجہ سے رک جاۓ گا،
جو بھارت کے لئے اضطراب کا باعث ہے۔
افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ چین،روس،ترکی،ایران،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک اسکے ساتھ ہوں،
تبھی ہم امریکہ کی ناراضگی کا بوجھ برداشت کرنے کے متحمل ہو سکیں گے#

@lalbukhari

Leave a reply