افغانستان کی تازہ ترین صورتحال اور طالبان کی پیش قدمی تحریر: احسان الحق

0
46

دوحہ معاہدے کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے فیصلے کے بعد افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی ہے. آئے روز طالبان کی کارروائیوں میں تیزی اور فتوحات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے. اکتوبر 2001 میں امریکہ اور نیٹو افواج کے افغانستان پر حملے اور نومبر 2001 میں طالبان کی حکومت گرانے سے لے کر اگست 2021 تک تقریباً 20 سالوں میں طالبان نے امریکی اور اتحادی افواج کے ساتھ ساتھ افغان فوج اور طالبان مخالف مسلح گروہوں کے خلاف بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھیں. ماہرین کے مطابق طالبان کی جانب سے دو ماہ میں افغان علاقوں اور شہروں پر کئے جانے والے حملے اور قبضے 20 سالوں میں کئے گئے مجموعی حملوں اور قبضوں سے کہیں زیادہ اور کامیاب ہیں. امریکی اور نیٹو افواج کا انخلاء 31 اگست کو مکمل ہو جائے گا.
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ انخلاء کا فیصلہ درست ہے اور افغانستان کے مستقل کا فیصلہ اب افغانیوں کو کرنا ہے.

امریکہ، نیٹو اتحادی افواج کے ساتھ ساتھ طالبان مخالف مسلح گروہوں نے نومبر 2001 میں طالبان کی حکومت گرا کر طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی. گزشتہ 20 سالوں میں طالبان اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ہیں. گزشتہ دو ماہ میں طالبان نے افغان حکومت اور فورسز کے زیر انتظام بہت سارے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے.
کابل حکومت کے زیر انتظام اور زیر حکومت علاقے سکڑ رہے ہیں. طالبان کے سامنے بعض مقامات پر حکام اور افغان فورسز بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈال رہے ہیں.

طالبان کے دعوے کے مطابق انہوں نے صوبہ بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر قبضہ کر لیا ہے. پچھلے کچھ دنوں میں طالبان کے قبضے میں جانے والے اہم شہروں کی تعداد 9 ہو چکی ہے اور یہ 9 شہر 9 صوبوں کے صدر مقام ہیں. اس سے پہلے طالبان نے صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر قبضہ کیا تھا. صوبے کے نائب گورنر صبغت اللہ سمنگانی نے بتایا کہ صوبے کا دارالحکومت ایبک طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے.
بالخصوص تقریباً پچھلے 8 دنوں میں طالبان نے اہم علاقوں اور شہروں پر قبضہ کیا ہے. افغان حکام کی تصدیق سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے میں طالبان نے 9 صوبوں کے دارالحکومت شہروں پر قبضہ مکمل کر لیا ہے. یہ 9 صوبوں کے دالحکومت شہر ہیں جن پر طالبان کا مکمّل انتظام اور قبضہ ہو چکا ہے.
فیض آباد، ایبک، قندوز، سرِپُل، تالقان، شبرغان، زرنج، پل خمری، اور فراہ شامل ہیں.

تازہ ترین کارروائیوں میں منگل کے دن طالبان نے نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے مزید دو صوبوں کے دارالحکومت شہروں پر قبضہ کیا. کابل سے محض 200 کلومیٹر دور شمال میں اہم شہر قندوز اور کابل کو ملانے والی شاہراہ پر واقع شہر پل جمری پر قبضہ کیا گیا. یہ انتہائی اہم راستہ ہے. اسی راستے کو وسطی ایشیا کا گیٹ وے کہا جاتا ہے. اسی روز منگل کو طالبان نے فراہ شہر پر بھی قبضہ کر لیا تھا. فراہ شہر صوبہ فراہ کا جبکہ پل جمری صوبہ بغلان کا دارالحکومت ہے.
بغلان سے پارلیمانی رکن مامور احمدزئی نے AFP کو بتایا کہ طالبان شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور اہم شاہراہوں، عمارتوں اور دفاتر کا انتظام سنبھال لیا ہے. بقول پارلیمانی رکن کے طالبان نے مرکزی چوراہے اور گورنر ہاؤس پر اپنے پرچم لہرا دیئے ہیں.

افغانستان میں طالبان کی جانب سے کابل کی طرف پیش قدمی جاری ہے اور دوسری طرف دوحہ میں کابل حکام اور طالبان حکام کے درمیان مذاکرات جاری ہونے جارہے ہیں. مزاکرات میں ثالث یا فیصل کے طور پر امریکی نمائندہ خصوصی ذلمے خلیل بھی امریکہ سے دوحہ پہنچ چکے ہیں.
شمالی افغانستان ہمیشہ سے طالبان مخالف گروہوں کے قبضے میں رہا ہے. مگر پل خمری پر طالبان کا قبضہ بہت اہمیت کا حامل ہے. پل خمری کے بعد اگر طالبان مزار شریف پر قبضہ کر لیتے ہیں تو کابل حکومت مزید سکڑ جائے گی. ادھر بھارت نے مزار شریف میں اپنا قونصل خانہ بند کر دیا ہے اور اپنے شہریوں کو فوراً مزار شریف سے نکل جانے کی ہدایت کی ہے.
اس وقت قندھار اور ہلمند صوبوں میں لڑائی جاری ہے. اگر طالبان قندھار کے دارالحکومت قندھار اور ہلمند صوبے کے دارالحکومت لشکر گاہ پر قبضہ کر لیتے ہیں تو جنوبی افغانستان میں طالبان کا قبضہ مکمل ہو جائے گا.

طالبان کی پیش قدمی کے خوف سے جولائی کے پہلے ہفتے میں تقریباً ایک ہزار فوجی جوان تاجکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے. جولائی کے آخری ہفتے میں 46 فوجی بمع 5 کمانڈرز پاکستان کی سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہو گئے تھے. سرحد عبور کرنے سے پہلے باقاعدہ طور پر فوج سے پناہ کی درخواست کی گئی تھی. پاکستان کے مطابق افغان فوج اس سے پہلے بھی پاکستانی حکام سے یکم اپریل کو اسی طرح پناہ کی درخواست کر چکی ہے.

@mian_ihsaan

Leave a reply