افغان مہاجرین نے اسلام آباد کے چلڈرن پارک میں خیمے لگا لیے

0
76

افغان مہاجرین نے اسلام آباد کے چلڈرن پارک میں خیمے لگا کر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔

متعلقہ حکام کی عدم توجہی کے باعث افغان مہاجرین نے اسلام آباد میں چلڈرن پارک پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں خیمے لگا کر رہائش پذیر ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹر ایف-6 کا نیا تعمیر شدہ چلڈرن پارک ان افغان مہاجرین کے لیے ایک عارضی کیمپ گراؤنڈ بن گیا ہے جن کا تعلق زیادہ تر ہزارہ برادری سے ہے، جو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
شروع میں مہاجرین نے نیشنل پریس کلب کے باہر ڈیرے ڈالے اور بعد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب ریڈ زون میں رہنے لگے، تاہم پولیس اور انتظامیہ انہیں ہائی سکیورٹی زون سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔
مہاجرین نے پھر پریس کلب کے باہر اپنے کیمپ قائم کر لیے، تاہم ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں نے سڑک کے اس پار چلڈرن پارک میں اپنے ڈیرے لگا لیے ہیں۔
تقریباً 700 افغان مہاجرین، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، گزشتہ چند ہفتوں سے پارک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ہرات سے یونیورسٹی سے فارغ التحصیل سوریا موسوی نے کہا کہ ہم ایک عوامی پارک میں رہ رہے ہیں لیکن ہم بے بس اور بے پناہ ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں کہاں جانا چاہیے؟۔
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک اور انسانی حقوق کے دیگر چیمپئن سمیت کوئی بھی ان کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم اس پارک میں اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں؟ نہیں، ہم یہاں رہنا نہیں چاہتے لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، ہم عالمی برادری اور امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں شہریت فراہم کی جائے کیونکہ ہم طالبان کی وجہ سے اپنے ملک واپس نہیں جا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ترقی یافتہ ممالک انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں تو پاکستان انہیں پناہ دے۔
واضح رہے کہ پاکستان کئی دہائیوں سے 13 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پہلے ہی پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔
ایک اور پناہ گزین نجمہ نوروزی نے کہا کہ کیمپ کی زندگی انتہائی سخت ہے کیونکہ پناہ گزینوں کو واش رومز استعمال کرنے کے لیے قریبی مساجد میں جانا پڑتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہے، کچھ خوشحال مقامی لوگوں نے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے پلاسٹک کے دو ٹینک فراہم کیے تھے جو ہمارے لیے ایک نعمت ہے لیکن پانی ناکافی ہے، بے بس اور ناامید ہیں۔
کچھ پناہ گزینوں کا کہنا تھا کہ ان کے کیمپوں کے قریب ایک عوامی بیت الخلا ہے لیکن انہیں اس کے استعمال کے لیے بیت الخلا کے آپریٹر کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، اسی طرح اپنے موبائل فون چارج کرنے کے لیے بھی دکانداروں کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے کروڑوں روپے خرچ کر کے اس پارک کی تزئین و آرائش کی تھی، تاہم ادارے کی لاپرواہی کی وجہ سے اسےd پناہ گزینوں نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
ایک مقامی لیاقت خان نے کہا کہ ہم پناہ گزینوں کے خلاف نہیں ہیں، وہ ہمارے بھائی ہیں لیکن ہم پبلک پارک میں کیمپ لگانے کے خلاف ہیں، سی ڈی اے اور پولیس کو انہیں پارک سے ہٹا دینا چاہیے۔
ایک اور مقامی رہائشی شبیر علی نے کہا کہ غیر منظم کیمپوں نے مقامی لوگوں کی سیکیورٹی کو خطرہ لاحق ہے، انہوں نے سی ڈی اے کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جو کہ پبلک پارکس کا نگراں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کیمپوں کو کسی اور جگہ منتقل کیا جانا چاہیے کیونکہ علاقے کے لوگوں کو پارک جانے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے کیونکہ اس پر مہاجرین نے اپنا قبضہ کرلیا ہے۔
رابطہ کرنے پر سی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل ماحولیات عرفان نیازی نے ڈان کو بتایا کہ وہ پارک کو خالی کرانے کا معاملہ دارالحکومت کی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ اٹھائیں گے۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پارک کی حال ہی میں تزئین و آرائش کی گئی ہے اور جلد ہی اسے عوام کے لیے خالی کر دیا جائے گا۔

Leave a reply