افغان طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کی رو سے امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں حکمرانی کے لئے افغان طالبان اور حکومتی افواج کے درمیان جھڑپوں میں شدت آ چکی ہے جس کے نتیجے میں ایک بار پھر افغانوں کی بڑی تعداد ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکی ہے تاہم اس بار جنگی جھڑپوں سے جان بچا کر دیگر ممالک میں پناہ لینے والے افغان مہاجرین کا رخ ماضی کے برعکس پاکستان کی طرف کم ہے اور وہ براستہ ایران، ترکی جانے کو ترجیح دے رہے ہیں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یورپی ممالک میں خاصی تشویش پائی جا رہی ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد براستہ ایران ترکی پہنچ کر یورپ کے دیگر ممالک میں بھی پھیل جائیگی اور یوں یورپ کو افغان مہاجرین کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان جاری جنگ کے نتیجے میں ہر روز 2 ہزار سے زائد افغان مہاجرین ترکی پہنچ رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس تعداد میں کئی گنا اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ افغانستان سے براستہ ایران افغان مہاجرین کا ترکی پہنچنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ 2016 میں شروع ہوا واضح رہے کہ افغانستان سے ترکی پہنچنے کے لئے افغان مہاجرین کو قریب 3 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔
افغانستان سے ترکی پہنچنے والے افغان مہاجرین کی مشکلات کے حوالے سے جرمنی کی ایک تحقیقاتی تنظیم "فریڈرچ البرٹ فائونڈیشن” نے بتایا کہ ہزاروں افغان مہاجرین افغانستان سے ترکی پہنچنے کے لئے بال بچوں اور خواتین سمیت انتہائی دشوار گزار راستوں پر سفر کرتے ہیں، اس سفر کے دوران نہ تو ان کے پاس کھانے پینے کے کچھ ذیادہ اسباب موجود ہوتے ہیں نہ ہی موسم کی شدت سے بچنے کے لئے ضروری سامان ہمراہ ہوتا ہے۔اففانستان سے ترکی تک کا یہ دشوار گزار راستہ دراصل سمگلنگ کرنے والوں کی دریافت ہے۔ ان راستوں سے تجارت کی غرض سے مختلف اشیاء کی غیرقانونی نقل وحمل کی جاتی ہے اور سمگلرز نے اس راستے پر کئی مقامات پر ٹھکانے بھی بنا رکھے ہیں تاہم اس راستے پر حفاظتی انتظامات اب خاصے سخت کر دیئے گئے ہیں اور صرف انہی خاندانوں کو ایران سے گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے جن کے پاس افغانی پاسپورٹ اور ایران کا ویزہ موجود ہو۔ ترکی پہنچ کر یورپ میں پناہ لینے کے خواہشمند کچھ افغانی خاندان براستہ پاکستان بھی ایران میں داخل ہوتے ہیں مگر اس راستے پر سفری اخراجات کافی ذیادہ اٹھانے پڑتے ہیں اس لئے امیر افغانی خاندان ہی یہ راستہ اختیار کر پاتے ہیں۔ ترکی جانے والے افغان مہاجرین کی آخری منزل ترکی پہنچنا نہیں ہوتا بلکہ وہ سمندری راستوں کے ذریعے یونان سے گزر کر یورپ کے دیگر ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاہم افغان مہاجرین کا یہ سفر خطرات سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ ترکی اور یونان کے درمیان سمندر عبور کرنے کے دوران کئی مہاجرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دسمبر 2020 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے مہاجرین کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین آباد ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 1979 میں شروع ہوا اور روس کے افغانستان پر حملے کے دوران دس لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ 1980 میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور انہیں امداد کی فراہمی کے لئے پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کئے تھے۔ 1981 سے 1990 کے دوران پاکستان میں رجسٹرڈ ہونے والے افغان مہاجرین کی تعداد 20 لاکھ تھی جس میں صرف ایک سال یعنی سال 1990 کے دوران 12 لاکھ کا اضافہ ہوا اور یہ تعداد 32 لاکھ تک جا پہنچی اور ایک محتاط اندازہ لگایا گیا کہ 5 لاکھ افغان مہاجرین بغیر رجسٹریشن کرائے پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تعاون سے پاکستان کے صوبوں پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 334 مقامات پر مہاجرین کیمپ بنائے گئے۔ 1996 میں جب طالبان نے افغانستان کے علاقوں جلال آباد اور کابل کا کنٹرول حاصل کیا تو 50 ہزار افغان مہاجرین خیبر پختونخوا میں داخل ہوئے اسی طرح 1999 میں جب طالبان نے مزار شریف کا کنٹرول حاصل کیا تو تب بھی ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان آئے جبکہ سال 2001 میں جب اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو ان دنوں میں بھی لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پناہ لی۔
افغان حکومت کی طرف سے معیشت کی بحالی، نقدی، ضروریات زندگی کی اشیاء اور سفری اخراجات کی ادائیگی پر سال 2002 سے سال 2007 کے درمیان 11 لاکھ افغان مہاجرین واپس گئے تاہم رضاکارانہ طور پر واپسی کا یہ عمل ابھی مکمل ہی نہیں ہو پایا تھا کہ جنگی صورتحال کے پیش نظر اب دوبارہ افغانوں کی بڑی تعداد پاکستان میں داخلے کی خواہشمند ہے تاہم اب ماضی کی طرح بغیر سفری دستاویزات کوئی افغان مہاجر یا افغان مہاجرین کی آڑ میں کوئی شرپسند پاکستان داخل نہیں ہو سکے گا کیونکہ پاک افغان سرحد 2 ہزار 6 سو 40 کلومیٹر کے 90 فیصد حصے پر 13 فٹ بلند خاردار دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ پاک افغان سرحد کی جدید ترین آلات سے نگرانی کرنے کے ساتھ 100 مختلف مقامات پر چوکیاں بھی بنائی گئی ہیں تاکہ افغان مہاجرین کی غیر قانونی نقل و حمل کو روکنے کے ساتھ شرپسندوں کی دراندازی کے واقعات کا خاتمہ کیا جاسکے۔ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر افغان مہاجرین کو کئی چیلنجز درپیش ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اور یورپی ممالک اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے پیشگی اقدامات کریں تاکہ دہائیوں پر محیط افغان مہاجرین کی صورت میں انسانی المیہ اور پڑوسی ممالک کو درپیش چیلنجز کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔