افغان مہاجرین، پاکستان کی سلامتی کے لیے چیلنج
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
پاکستان کی سرزمین ہمیشہ سے مظلوم اور بے بس لوگوں کے لیے پناہ گاہ رہی ہے۔ افغان مہاجرین بھی اسی سلسلے کی ایک مثال ہیں جنہیں پاکستان نے اپنے دل اور سرزمین پر جگہ دی، جب 1979 میں سوویت یونین کی جارحیت کے بعد افغانستان جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔ تاہم، اب وقت آگیا ہے کہ ان مہمانوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لیا جائے کیونکہ یہ صورتحال معاشی، سماجی اور امن و امان کے لحاظ سے پاکستان کے لیے بہت بڑا بوجھ بن چکی ہے۔
پاکستان میں افغانی مہاجرین کی موجودگی کے باعث جرائم کی شرح میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے مختلف قسم کے جرائم، جیسے منشیات کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور کرائے کے قاتلوں کا نیٹ ورک مضبوط ہو چکا ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے نہ صرف ملک کی سرحدوں کو غیر محفوظ بنایا جا رہا ہے بلکہ پاکستان کی نوجوان نسل منشیات کی عادی بن رہی ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں نے پاکستان کی سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے اور عوام کی زندگی کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم میں بھی افغان مہاجرین کے ملوث ہونے کی اطلاعات عام ہیں۔ ان کی موجودگی نے مجرموں کے نیٹ ورکس کو تقویت بخشی ہے جو کہ نہ صرف شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ امن و امان کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔ کرائے کے قاتلوں کی بھرتی اور ان کا استعمال بھی بڑھ چکا ہے، جس نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
افغان مہاجرین کے مسائل میں ایک اہم عنصر طالبان کا کردار بھی ہے۔ آئے دن سرحد پار سے طالبان کی جانب سے پاکستان کے نہتے شہریوں پر فائرنگ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ کارروائیاں نہ صرف پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ افغان مہاجرین کی موجودگی کو مزید مشکوک بناتی ہیں۔ ایسے حملوں کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے اور سرحدی علاقوں میں زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
افغان مہاجرین کی موجودگی نے پاکستان کی معیشت پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان نے ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور ضروریات کے لیے کئی دہائیوں سے اپنے وسائل استعمال کیے ہیں۔ تعلیم، صحت اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بھی پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اور افغان مہاجرین کی بھاری تعداد نے اس بوجھ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کے جذبے کے تحت افغان مہاجرین کو پناہ دی لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو اس کا صلہ جرائم اور عدم استحکام کی صورت میں مل رہا ہے؟ افغانیوں کی اکثریت اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور پاکستان میں رہتے ہوئے بھی وہ پاکستان کی قانون و ضوابط کی پاسداری کرنے میں ناکام ہیں۔ اب پاکستان کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا مہمان نوازی کا مزید بوجھ برداشت کیا جا سکتا ہے یا انہیں واپس اپنے ملک روانہ کرنا ہی بہتر حل ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلے کا سنجیدگی سے حل نکالے۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی جائے اور بین الاقوامی برادری سے مدد حاصل کی جائے تاکہ یہ عمل پرامن اور باعزت طریقے سے مکمل ہو سکے۔ ساتھ ہی ساتھ سرحدوں کی مزید سخت نگرانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے تاکہ منشیات اسمگلنگ اور دیگر جرائم کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
پاکستان نے افغان مہاجرین کیلئے ہمیشہ فراخدلی کا مظاہرہ کیا لیکن بدلے میںان افغانوں نے دہشت گردی، کلاشنکوف کلچر، منشیات اور بدامنی کے تحفے دئے۔ جہاں معاشرتی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے، وہاں عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھتا جا رہا ہے۔اب افغان مہاجرین پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک کھلا چیلنج بن چکے ہیں ،ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا اب بھی اس مہمان نوازی کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے؟ پاکستانی عوام کا اپنی حکومت سے یہ سوال مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کب تک ان افغان مہاجرین کو برداشت کیا جائے گا؟