افغانستان کی سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے بد امنی
اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ افغان باشندوں نے جہاں داؤد خان کے ہاتھوں شاہ افغان ظاہر شاہ کے اقتدار کا خاتمہ دیکھا وہیں کمیونزم کے نظریات کے حامی نور محمد ترکئی کے مسند اقتدار پر براجمان ہونے جیسے سیاسی تغیرات کا سامنا کیا ۔70 کی دہائی کے اختتام میں سوویت یونین کی افغان سر زمین پر چڑھائی نے دنیا اور بالخصوص خطے کی سیاست پر گہرے نقوش ڈالے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے درمیان چھڑنے والی سرد جنگ نے جب دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تو پاکستان نے اپنی حمایت امریکہ کے پلڑے میں ڈال دی۔ پاکستان نے نہ صرف سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدات کیے بلکہ فوجی اتحاد نیٹو کا غیر رکنی اتحادی بھی بن گیا۔اور اس طرح پاکستان نے سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا کے لئے شروع کی جانے والی افغان جنگ میں بھرپور ساتھ دیا۔پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے سوویت یونین کی گرم پانیوں کی جانب پیش قدمی کے اندیشے کو
افغان جنگ میں حصہ لینے کی وجہ قراردیا۔ سوویت افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کی بھرپور حمایت کے ساتھ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی۔ کچھ ہی عرصہ بعد افغانستان میں ایک دفعہ پھر بدامنی کا نیا باب کھل گیا۔
9/11
حادثے کے بعد اقوام عالم نے دنیا بھر میں دہشت گرد
کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی افواج داخل کردیں۔امریکہ نے افغانستان کی سرزمین کو امریکہ کی سالمیت کے خلاف استعمال ہونے کے مؤقف پر انحصار کرتے ہوئے نہ صرف افغانستان پرحملے کا جواز پیش کیا بلکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو اس کا سرغنہ بھی قرار دیا۔پاکستان نے ایک دفعہ پھر امریکہ کی غیر مشروط حمایت کی۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ نے پاکستان کی سالمیت پر اندوہناک اثرات ڈالے۔افغان شہریوں کی پاکستان کی جانب ہجرت اور 30 لاکھ مختلف شہروں میں آبادکاری سے سالمیت اور معیشت متاثرہوئی۔ وطن عزیزدہشت گردی جیسی آگ کی لپیٹ میں آگیا جس سے سنگین حد تک جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا وہیں ایک طویل جنگ لڑی گئ۔
گزشتہ چند برسوں میں افغانستان کے مسئلے کے فوجی حل کی ناکامی کا اندازہ لگاتے ہوئے قیام امن کے لئے مذاکرات کی ضروت محسوس کی۔اس زمن میں 2020 میں افغانستان میں قیام امن کے لئے قطر کےدارلحکومت دوحہ میں ،افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے امریکی افواج کے 14 ماہ کے اندر افغان سرزمین سے انخلاء کے متعلق ماہدہ طے پایا۔گزشتہ چند ماہ میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت حال نے جنم لیا۔چندروزسے ملکی و غیر ملکی خبر رساں اداروں میں طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور 85 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی خبریں گردش عام تھیں۔اتوار کے روزکابل پر افغان طالبان کے کنٹرول اور اشرف غنی کی اقتدار سے دست برداری سے بالاخر یہ قصہ اپنے اختتام کو پہنچا۔یہ دنیاکی سیاست میں ایک انتہائی اہم پیشرفت واقع ہوئی ہےجس سے آئندہ دنوں ميں خطے کی سیاست کے یکسر بدلنے کے امکانات ہیں ۔
تاریخ کے اوراق اس بات پرمہر ثبت ہیں کہ آخر افغانستان میں قیام امن پاکستان کی سالمیت کے لئے کس حد تک ناگزیر ہے۔علاو ازیں جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کا خواب افغانستان میں امن کے بغیر ناممکن ہے۔جغرافیائی حیثیت سے دیکھا جائے تو پاکستان قدرتی دولت سے مالامال وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کرنے کا واحدذریعہ افغانستان ہے۔اس کے علاوہ پاک چین راہداری منصوبہ کی کامیابی کے لیے قیام امن مشروط ہے۔یہی وجہ ہے پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئےاپنا بھرپور کردار ادا کررہاہے۔ماضی کی طرح ایک دفعہ پھر پاکستان افغان طالبان کی کابل میں حکومت کےقیام کے حمایتی کے طور پر نظر آتا ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی برس سے کابل میں دوستانہ حکومت کے قیام کا خواہشمند رہاہے۔تاہم ماہرین نے متعدد بار افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے اندیشے کا اظہار کیا ہے۔کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر نور ولی محسود کے امریکی خبر رساں ادارے کو دیے گئے حالیہ انٹرویو کے دوران پاکستان کے خلاف کھلم کھلا مخالفت باعث تشویش ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 6000 سے زائد کلعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد افغان سر زمین میں پناہ لیے بیٹھے ہیں ۔اس زمن میں پاکستان کو اپنے وسیع تر قومی مفاد کو بالاتر رکھتے ہوئے افغان طالبان جانب سے اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ ماضی میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف استعمال ہونے والی سرزمین دوبارہ اس کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔علاوہ ازیں حالیہ تغیرات کے باعث لاکھوں مہاجرین کا سیلابی ریلہ پاکستان میں داخل ہونے کے در پے ہے اس مسئلے کا سدباب عالمی سطح پر ناگزیر ہےتاکہ ماضی کی طرح ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکے۔
Written By: Khalid Imran Khan
Twitter ID: @KhalidImranK