افغانستان خانہ جنگی کا شکار کیوں؟ تحریر:راؤ اویس مہتاب

0
41

اس وقت افغانستان کے حالات کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ کھچڑی پکی ہوئی ہے اور معاملات اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ جیسے ایک ڈور کے بڑے گنجل کو سلجھانا۔ہر ملک اپنا کھیل کھیل رہا ہے اور ہر ایک کے مفادات دوسرے سے متصادم ہیں۔
آج کی اس تحریرمیں ہم آپ پوری کوشش کریں گے کہ آپ کے ذہن میں افغانستان کے معاملے سے متعلق کئی سوالات کا جواب دے دیں۔ کیا افغانستان میں امن ممکن ہے اور اگر نہیں تو اس کی وجوہات کیا ہیں معاملات کتنے سنگیں ہیں اور کیا ماضی میں ان کے سلجھنے کے کوئی امکانات ہیں۔ امریکہ، چین، روس، بھارت اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کیوں افغانستان میں بر سر پیکار ہیں۔ ان کے کیا خدشات ہیں اور وہ انہیں کیسے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان آج خانہ جنگی کا شکار ہے۔

طالب حکومت پر امریکہ کے حملہ کرنے سے پہلے افغانستان میں چیچن مجاہدین، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، سنکیانک صوبے کی علیحدگی پسند تنظیم، القاہدہ سمیت دیگر تنظیموں کے لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔ جبکہ بھارت مولانا مسعود اظہر کی رہائی کے لیے جہاز کے ہائی جیک ہونے اور افغانستان میں قندھار ائیر پورٹ پر اترنے کے بعددنیا بھر میں یہ ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا کہ بھارت میں بد امنی پھیلانے والی تنظیموں کی پرورش افغانستان میں ہو رہی ہے ۔
جسے امریکہ کے افغانسان میں آنے کے بعد بھارت نے اپنے حق میں کر لیا۔ لیکن اب جہاں بھارت کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں وہیں روس چین، ایران، سینٹرل ایشین ممالک سمیت پاکستان بھی پریشان ہے۔ اسے پتا ہے کہ اب پاکستان میں طالبانائزیشن زور پکڑے گی۔ ۔ چین الگ سے سنکیانک کے لیے پریشان ہے تو روس اپنے سینٹرل ایشین اتحادیوں کے لئے پریشان ہے جبکہ ایران بھی طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے الجھن کا شکار ہے اور اس نے پاکستان کی طرح ایران بارڈر پر فوج تعینات کر دی ہے۔
چاہے پاکستان ہو یا ایران روس اور چین۔۔ طالبان کسی کی بھی من و عن بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں اور اگر اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ ہو اور جس میں انہیں اپنا مفاد نظر نہ آئے تو وہ نہیں مانتے ۔ کہنے کو تو امریکہ افغانستان سے زلت آمیز شکست کھا کر جا رہا ہے یہاں ڈھائی ہزار فوجی مروانے اور ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود انہیں طالبان سے معاہدہ کرنا پڑا ۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی فوجی جا رہے ہیں لیکن امریکہ افغانستان میں موجود ہے۔ امریکی پیسے سے ہی افغانستان چلے گا اور افغانستان کو چلانے کے لیے طالبان کو بھی پیسے کی ضرورت ہے۔ اس کے افغانستان کے اردگرد
دو درجن فوجی اڈے ہیں اور ان کی کٹ پتلی حکومت ابھی تک کابل میں براجماں ہے تو ایسی صورتحال میں پریشان دوسری پارٹیوں کو ہونے کی ضرورت ہے جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔
روس کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ پیوٹن جنیوا میں بائیڈن سے ملاقات میں امریکہ کو یہ آفر کر چکا ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک تاجکستان اور کرغستان میں اس کے فوجی اڈوں کو امریکہ ڈرون سے جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتا ہے لیکن امریکہ نے روس کی اس پیشکش کا جواب دینا بھی گوارا نہیں سمجھا۔
امریکہ نے افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مزاکرات کروانے کی بجائے خود مذاکرات کیے۔ جس کے بعد طالبان غیر ملکی فوج کو نکالنے کا کریڈٹ لینے کے قابل ہو گئے۔ امریکہ کے طالبان سے مذاکرات میں طالبان کے وقار میں اضافہ ہوا۔
افغان حکومت کا سب سے بڑا دشمن اس وقت طالبان ہیں جن سے ان کی جنگ جاری ہیں اور طالبان سے شکست کے بعد افغان ھکومت نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا ہے۔ اس وقت افغان حکومت پر قوم پرست لیڈروں کا قبضہ ہے اور ان سے پاکستان کی کم ہی بنتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا اس بات سے پریشان ہے کہ کہیں افغانستان دنیا بھر کے دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر نہ بن جائے۔ اس لیے پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ وہ افغانستان میں صرف ایسی حکومت کو تسلیم کرے گی جو افغانستان کی تمام عوام کی ترجمانی کرتی ہو صورف ایک یا دو طبقوں کو طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان پر طالبان کی سپورٹ کا الزام کیوں لگتا ہے پاکستان افغانستان میں گریٹ گیم کا حصہ کیوں بنا۔ افغانستان میں اثرورسوخ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ کیوں ہے۔ یہ انتہائی اہم سوالات ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو آج تک افغانستان کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا یہاں تک کہ جب طالبان کی کابل پر حکومت تھی تو انہوں نے بھی پاکستان سے ڈیورنڈ لائن کے پرماننٹ معاہدے سے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ یہ معاملہ افغانستان میں بڑا ا حساس ہے۔ افغانستان پاکستان کی پوری پشتون بیلٹ کو اپنا حصہ کلیم کرتا ہے جو May 1879 میںTreaty of Gandamak کے زریعےافغان بادشاہ یعقوب خان نے انگریزوں کو لکھ کر دے دی تھی۔ اس کے بعد نئے بادشاہ عبدالرحمان خان نے اس معاہدےکی تصدیق بھی کی۔افغانستان کے قوم پرست لیڈروں نے پاکستان کے قیام سے لے کرستر کی دہائی تک اس کے خلاف ہر سازش کی اور اس کے دشمنوں کی مدد سے ان علاقوں میں شورش پیدا کر نے کی کوشش کی۔ پاکستان کے قوم پرست لیڈروں کو بھڑکایا گیا اور پاکستان کی سالمیت کو خطرات لاحق کئے گئے جو آج بھی جاری ہیں، پھر بھٹو کے دور میں افغانستان میں مذہبی طاقتوں کو سپورٹ کر کےپاکستان نے وہاں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ اور اس کے بعد طالبان کے دور میں پاکستان کو کافی سکون رہا۔ پاکستان نے امریکہ کے پریشر میں افغانستان پر حملے کا ساتھ تو دے دیا لیکن پھر بعد میں پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ اس نے امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کی ہے اس نے طالبان کو بچنے میں مدد دی اور انہیں پناہ بھی دی گئی۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے اور پاکستان کے ساتھ کھل کر ہاتھ صاف کرنے اور یہاں دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے اور علیحدگی پسندوں کو پیسہ دے کر پاکستان میں بد امنی کروانے کی کھلی چھٹی دے دی جس کی پاکستان نے بھاری قیمت چکائی جو آپ سب کے سامنے ہے۔اب بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی لاٹری نکل آئی ہے پاکستان طالبان کی صورت میں افغانستان میں کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر رہا ہے۔ اوربھارت اپنے دشمن کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کی پوری کوشش کر رہا ہے خواہ اس کے لیئے اسے افغان حکومت پر قابض دھڑوں کو فنڈنگ کرنا ہو یا اسلحہ سمیت کوئی بھی چیز دینا ہو وہ انہیں دے رہا ہے۔ساتھ میں پاکستان کے امیج کو تناہ کرنے کے لیے مکروہ کھیل بھی کھیل جا رہے ہیں۔ لیکن طالبان اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں۔ طالبان کے بڑھتے ہوئے غلبے سے نہ صرف افغان لبرلز کو ڈرایا جا رہا ہے بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر طالبان آگئے تو ان کے ساتھ دنیا کا چلنا ممکن نہیں اور افغانستان کی تباہی کا سفر یہاں سے شروع ہو جائے گا اور یہ وہی لوگ کر رہے ہیں جو طالبان کو کسی صورت افغانستان پر قابض نہیں دیکھنا چاہتے۔

انڈیا 2002 سے اب تک افغانستان میں تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور اس کے مفادات سلامتی اور معیشت دونوں سے وابستہ ہیں۔انڈیا کویہ بھی خدشہ ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا ہے تو کشمیر کی صورتحال متاثر ہوسکتی ہے۔ بھارت نے ایران کے راستے افغانستان اور پھر سینٹرل ایشین ممالک تک پہنچنے کے لیے بھی بہت سرمایہ کاری کی ہے۔7200 کلومیٹر شمال جنوبی راہداری میں سرمایہ کاری کی ہے جو ایران سے روس تک چلے گی۔ مگر یہ سب امریکی سپاہیوں اور افغانستان میں جمہوری حکومت کی موجودگی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ طالبان سے بھارت کی محبت سب کے سامنے ہے۔ایسی صورتحال میں طالبان کی افغانستان میں آمد انڈیا کے لیے دھچکے سے کم نہیں ہےماضی میں انڈیا امریکہ کے ساتھ افغانستان میں سرگرم تھا لیکن ایران اور روس کے ساتھ ایسا کوئی اتحاد نہیں تھا۔ لیکن اب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے تہران پہنچنے سے پہلے ایک طالبان کا وفد وہاں موجود تھا۔ جب وہ روس پہنچے تو وہاں بھی طالبان موجود تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انڈیا اس وقت ایران اور روس دونوں کے ساتھ افغانستان پر کام کر رہا ہے۔شیو سینا کی راجیہ سبھا رکن پریانکا چترویدی اپنی ٹویٹ میں افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں کہتی ہیں کہ
افغانستان میں طالبان کے جمتے ہوئے قدم، ان کا پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی گرم جوشی صرف انڈیا کے لیے نہیں بلکہ تمام ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے کیونکہ اس ابھرتے ہوئے بنیاد پرست اتحاد کی وجہ سے خطے میں تمام کامیابیاں ضائع ہو جائیں گی۔انڈیا کو خدشہ ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف سٹریٹیجگ سبقت کھو دے گا۔ پاکستان پر نفسیاتی اور سٹریٹیجنگ دباؤ ہے کہ افغانستان میں انڈیا مضبوط ہو رہا ہے۔ انڈیا کے کمزور ہونے سے پاکستان کا اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے۔جبکہ چین کا وسائل سے مالا مال صوبہ سنکیانگ اور افغانستان کے بیچ آٹھ کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ افغان صورتحال کے پیش نظر چین کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان اقتدار میں آئے تو اس سے سنکیانگ میں علیحدگی پسند ایسٹ ترکستان اسلامی تحریک کو پناہ اور مدد مل سکتی ہے۔یہ ایک چھوٹا علیحدگی پسند گروہ ہے جو مغربی چین کے سنکیانگ صوبے میں متحرک ہے۔ یہ ایک آزاد مشرقی ترکستان قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سنکیانگ صوبے میں چین کی ایک نسلی مسلم اقلیت اویغور آباد ہے۔

کچھ عرصے سے چین افغانستان کے صوبے بدخشاں میں اپنے تاجکستان کے ملٹری بیس سے ایکٹیو ہوا ہوا ہے۔چین افغانستان کو بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔طالبان نے چین کویقین دلایا ہے کہ وہ آئندہ سنکیانگ سے علیحدگی پسند اویغور جنجگوؤں کو افغانستان داخل نہیں ہونے دیں گے۔روس کو خدشہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان سخت گیر اسلام کا گڑھ نہ بن جائے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں اسلام کی بنیاد پر انتہا پسندی بڑھتی ہے تو اس سے پورے وسطی ایشیا کو خطرہ ہو گا۔ یعنی اگر خون بہے گا تو اس کے قطرے ماسکو پر بھی پڑیں گے۔روسی اثر و رسوخ میں رہنے والے ملک جیسے تاجکستان اور ازبکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحدیں ہیں۔ روس کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں افغان سرحدوں پر انسانی اور سکیورٹی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔Islamic Movement of Uzbekistanاور
and Eastern Turkistan Islamic Movement سے ان ممالک کو خطرہ ہے ان دونوں تحریکوں کے طالبان،القائدہ اور داعش سے تعلقات ہیں اسی لیے افغانستان کی سرحد پر سینٹرل ایشن ممالک اور روس نے پچاس ہزار فوجی اور سات سو ٹینک تعینات کر رکھے ہیں۔طالبان کے ایک وفد نے روس کے دورے پر یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان میں کسی پیشرفت سے وسطی ایشیا کے علاقوں کو خطرہ نہیں ہو گا۔اورافغان سرزمین کو کسی ہمسایے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔ترکمانستان کو بھی اسی طرح کے خدشات ہیں جہاں یہ افغانستان کے ساتھ 804 کلو میٹر طویل سرحد رکھتا ہے۔ چین اور روس کی طرح قازقستان اور کرغزستان کو بھی افغانستان میں سخت گیر اسلام کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ان کی سرحدیں افغانستان سے نہیں ملتیں مگر انھوں نے اپنے ملکوں میں ایسے حملے دیکھے ہیں جن کا تعلق افغانستان سے قائم کیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی کے علاوہ افغانستان میں امن قائم کرنے سے وسطی ایشیا کے ملک تیل، گیس یا کوئلے جیسے قدرتی وسائل انڈیا اور پاکستان سمیت دیگر جنوبی ایشیا کے ملکوں میں بھیج سکیں گے۔ اس لیے بھی ان ممالک کی نظریں افغان صورتحال پر جمی ہوئی ہیں۔

Leave a reply