فتنوں کا دور تحریر : رمیصہ عروج

0
54

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”نیک اعمال کر لو اس سے پہلے کہ فتنہ رات کے اندھیرے کی طرح پھیل جائے. اس دور میں انسان صبح کافر اور شام کو مومن ہوگا یا صبح مومن اور شام کو کافر ہوگا .وہ شخص تھوڑے سے فائدے کے لئے اپنے دین کو بیچ دے گا۔”(صحیح مسلم) اللہ کے نبی نے فرمایا کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں فتنہ رات کے اندھیرے کی طرح پھیل جائے گا۔رات کے اندھیرے کی طرح پھیل جانے سے مراد ہے کہ حق واضح نہ ہو گا۔رات کے آندھیرے میں راستے گم ہو جاتے ہیں،دکھتے نہیں۔سا
منے آنا والا راہ گزر بھی نہیں دکھتا،صحیح اور غلط کی پہچان نہیں ہوتی۔رات کی تاریکی میں چھپ کر گناہ کیے جاتے ہیں کیونکہ انسان کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ لوگوں میں سے کوئ مجھے دیکھ رہا ہے۔وہ یہ بھول جاتا ہے کہ عرش عظیم کا رب اسے دیکھ رہا ہے،فرشتے اس کا عمل تو کیا ہر لمحہ قلم بند کر رہے ہیں۔رات کے اندھیرے سے مراد ہے کہ حق کو پہچاننا مشکل ہو جاۓگا،حق پر ثابت قدم رہنا مشکل ہو جاۓ گا ۔انسان کا ایمان اور خیالات بہت ڈگمگائیں گے۔انسان کی شہوات اور خواہشات تو روزازل سے ہیں ہی،شبہات میں اضافہ ہو جاۓگا۔اگر غور کیا جاۓ تو آج فتنہ ہمارے ہاتھ میں ہے،فون کی ایک کلک پر یو ٹیوب پہ سب کھل کر انسان کے سامنے آجاتا ہے،انسان نہیں جانتا کہ اب نظروں کے سامنے سچ ہے یا جھوٹ۔فیس بک پر اسلام یا مسلمانوں کے خلاف مواد مل سکتا ہے۔عیسائیوں نے اپنے دین کی تبلیغ کے لیے بہت سی ویب سائٹس بنا رکھی ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ تبلیغ مذہب عیسائیت کی ہورہی ہے۔چشم زدن میں بہت سا ایسا مواد انسان کی نظر سے وقتاً فوقتاً گزر جاتا ہے جو اسے حق کی پہچان میں شبہات کا شکار کر جاتا ہے۔اسی طرح ا نسان اگر صبح کو مومن ہے تو رات تک اس کی نظروں سے ایسا مواد گزرگیا جس نے نور ایمان کم کر دیا اور شبہات اس حد تک بڑھا دیے کہ انسان شام تک کافر ہو گیا۔اعاذن اللہ منھم۔اب سوال یہ کے کہ حق کی پہچان کیسے کی جاۓ؟یا صحیح علم کیسے حاصل کیا جاۓ؟ سب سے پہلے تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ "اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت فرمائیے۔”اور پھر ایسے ہی صحیح علم کی پہچان کریں گے جیسے ہم بہت سے ڈاکٹرز میں سے صحیح ڈاکٹر کا انتخاب کرتے ہیں۔ہم خود تو ڈاکٹر نہیں ہیں مگر صحیح ڈاکٹر کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔اسی طرح ہم خود تو عالم نہیں مگر ہم تحقیق سے صحیح علم کی تفتیش کر سکتے ہیں۔اللہ نے ہمیں اتنا شعور دیا ہے کہ ہم جدوجہد کر کے صحیح اور غلط کی شناخت کر سکیں۔ہمیں بس کوشش کر کے تحقیق کرنی ہے اور جب ہم کوشش کریں گے تو اللہ ضرور ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت فرما دیں گے۔اللہ نے فرمایا تم میری طرف ایک قدم آؤ ،میں تمہاری طرف دس قدم آؤں گا۔اللہ نے پہلا قدم انسان کو دے کر اسے اختیار دے دیا کیونکہ ہر انسان اللہ کی طرف قدم بڑھانے کے قابل نہیں ہوتا ،وہ کو ئ کوئ ہی ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں قدم بڑھائے اور پھر ثابت قدم رہے۔اللہ کا راستہ ایسا ہے جیسے ڈھلوان ہو اور انسان اونچائی کی طرف چڑھ رہا ہو،ہر قدم سوچ سمجھ کر ،جما کر رکھنا ہے۔ایک کمزور قدم انسان کو تین چار قدم پیچھے دھکیل دیتا ہے۔یہ وہ راستہ ہے جس میں انسان کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔
حدیث کا اگلا حصہ ہے کہ انسان تھوڑے سے فائدے کے لیے اپنے دین کو بیچ دے گا۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کی بھاگ دوڑ میں،اچھے نمبروں کے پیچھے ،اچھے عہدوں کے پیچھے ہماری نمازیں رہ جاتی ہیں۔جب انسان کی نماز ہی رہ گئ تو کیا فائدہ کہ اس نے جتنی بھی شاندار کامیابی حاصل کی۔یہ ہے دنیا کے حقیر سے فائدے کے لیے اپنے دین کو بیچ دینا،گھاٹے کا سودا کرنا۔دنیا کی زندگی تو انسان کے تصور سے بھی زیادہ چھوٹی ہے۔اگر ہم تھوڑے سے فائدے کے لیے دین کو بیچ رہے ہیں تو پھر شکایتیں کیسی کہ ہم مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔بہت سی مشکلات انسان پر صرف اور صرف مکافات عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ہمیں خود کا جائزہ لینا ہے کہ کہیں ہم ایسے نہ ہو جائیں کہ دنیا کے حقیر اور معمولی سے فائدے کے لیے آخرت کو پس پشت ڈال دیں۔اس لیے حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کریں۔بے مقصد چیزوں میں وقت ضائع نہ کریں ،انھیں اپنی زندگی سے نکال دیں۔ان چیزوں کو اپنی زندگی سے نکال دیں جو آپ میں دنیا کا حرص و لالچ پیدا کر رہی ہیں۔دنیا کی حرص تو وہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہونے والی،اس لیے اپنی زندگی سے اس کو نکال دیں۔ اس دور میں ہر قدم ہمیں پھونک پھونک کر رکھنا ہے اگر ہم اللہ کے بننا چاہتے ہیں تو،اگر ہم جنت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو۔جنت اتنی ارزاں نہیں ہے ،بہت قیمتی ہے اور قیمتی چیزیں آسانی سے نہیں ملا کرتیں،ان کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

Leave a reply