نامورادیبہ،شاعرہ،عالمہ،ڈرامہ رائٹر اورریڈیو کمپیئرافروزرضوی

0
51

نامورادیبہ،شاعرہ،عالمہ،ڈرامہ رائٹر اورریڈیو کمپیئرافروز رضوی

وہ چاک جن کو رفو کر رہی ہوں سالوں سے
میں ایک سیتی ہوں تو دوسرا ادھڑتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 مارچ 1969

نامورادیبہ،شاعرہ،عالمہ ، ڈرامہ رائٹر اور ریڈیو کمپیئر افروز رضوی صاحبہ کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر و تعارف . آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامور پاکستانی ادیبہ، شاعرہ، عالمہ، کمپیئر ، انائونسر اور ڈرامہ نویس سیدہ افروز صاحبہ 3 مارچ 1969 کو ہندوستان کے شہر امروہہ کے ایک معروف علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد صاحب کا نام سید انور حسن رضوی اور والدہ صاحبہ کا نام سیدہ ذکیہ رضوی ہیں ۔ افروز رضوی صاحبہ کے چار بہن بھائی ہیں جن میں 3 بہن اورایک بھائی شامل ہیں ۔ وہ بہت چھوٹی عمر کی تھیں کہ ان کے والدین ہندوستان سے ہجرت کر کے حیدر آباد پاکستان منتقل ہو گئےاس لیے ان کی تعلیمی اسناد میں ان کی جائے پیدائش حیدرآباد کندہ ہے۔ افروز صاحبہ کے والد سید انور حسن رضوی صاحب کی 1992 میں حیدر آباد میں وفات ہوئی ہے۔ ۔ افروز صاحبہ کو بچپن سے ہی لکھنے اور شاعری کا شوق تھا انہوں نے ساتویں جماعت میں "_جگنو” کے عنوان سے نظم لکھی تھی جس کو ان کی کلاس ٹیچر نے بہت سراہا تھا اور ریڈیو اسٹیشن لے جا کر ان کو بچوں کے ایک پروگرام میں شامل کروایا تھا۔ افروز صاحبہ نے کیمسٹری میں ڈگری حاصل کی جبکہ انہوں نے ادارہ ” قرآن انسٹیٹیوٹ” سے قرآن کریم کی تلاوت، تفسیر، ترجمہ اور تجوید کی تعلیم مکمل کر کے اسناد حاصل کیں ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ان کی شادی ایک معزز خاندان کے فرد عبدالباسط صاحب سے ہوئی جو کہ اس وقت بینک میں اعلی آفیسر ہیں اور وہ شعر و ادب کے حوالےسے اپنی اہلیہ محترمہ کی مکمل سپورٹ اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ ماشاءاللہ یہ3 بچوں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے. خوش قسمت والدین ہیں ان کے تینوں بچے اعلی تعلیم یافتہ ماشاءاللہ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کی بیٹی کینیڈا میں مقیم ہیں ۔ افروز صاحبہ ریڈیو پاکستان سے باضابطہ طور پر وابستہ ہو گئیں ۔ وہ ریڈیو پاکستان کی ایک مستند آواز، کمپیئر، انائونسر اور ڈرامہ نویس ہیں جن کے اب تک بے شمار ڈرامے اور پروگرام نشر ہو چکے ہیں اوراب بھی نشر ہو رہے ہیں ۔ افروز رضوی صاحبہ کا مطالعہ بہت وسیع ہے انہوں نے تمام استاد شعراء کو پڑھ رکھا ہے جبکہ شاعری میں 6 کتابوں کے مصنف اور ریڈیو پاکستان حیدر آباد کے سابق سینیئر پروڈیوسر محمود صدیقی صاحب ان کے استاد رہے ہیں ۔ افروزصاحبہ کے اب تک 2 شعری مجموعے "سخن افروز ” اور ” زمن افروز ” شائع ہو چکے ہیں جبکہ ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری پر مشتمل ایک کتاب” ایمان افروز” زیر طباعت ہے۔ افروزصاحبہ کئی ادبی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں جبکہ وہ متعدد علمی اور ادبی اداروں سے بھی وابستہ ہیں ۔ جن میں وہ ” شاعرات پاکستان ” کی بانی چیئر پرسن ، ڈائریکٹر پروگرام شریف اکیڈمی جرمنی اور سہ ماہی ادبی جریدہ لوح ادب کی مشیر کے عہدے پر فائز ہیں ۔ افروز صاحبہ آجکل کراچی میں مقیم ہیں مگر ان کا امریکہ کینیڈا اور دبئی وغیرہ آنا جنا رہتا ہے ۔

سیدہ افروز رضوی صاحبہ کی خوب صورت شاعری سے 2 منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساحل سے اٹھا ہے نہ سمندر سے اٹھا ہے
جو شور مری ذات کے اندر سے اٹھا ہے

دریائے محبت کے کنارے کبھی کوئی
ڈوبا ہے جو اک بار مقدر سے اٹھا ہے

وہ آئے تو اس خواب کو تعبیر ملے گی
جو خواب جزیرہ مرے ساگر سے اٹھا ہے

میں اپنے رگ و پے میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں
جو شخص ابھی میرے برابر سے اٹھا ہے

رقصاں ہے مری آنکھ میں احساس کی مانند
منظر جو تری آنکھ کے منظر سے اٹھا ہے

پھولوں کو ترے رنگ نے بخشی ہے کہانی
خوشبو کا فسانہ ترے پیکر سے اٹھا ہے

اس شہر محبت میں وہ رکتا ہی نہیں ہے
جو شور ترے پیار کے محور سے اٹھا ہے

یہ اس کا رویہ یہ انا یہ لب و لہجہ
ان سب کے سبب امن و سکوں گھر سے اٹھا ہے

مہر و مہ و انجم میں اسے ڈھونڈنے والو
یہ سارا جہاں خاک کے پیکر سے اٹھا ہے

رہتا ہے مری آنکھ میں کاجل کی طرح سے
جو دور تمناؤں کے تیور سے اٹھا ہے

میں در سے ترے اٹھ کے اسی سوچ میں گم ہوں
کیا کوئی خوشی سے بھی ترے در سے اٹھا ہے

جو اس کی نظر سے کبھی افروزؔ اٹھا تھا
اس بار وہ محشر مرے اندر سے اٹھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مہکتا ہے جو خوشبو کے حوالوں کی طرح
اس کو رکھا ہے کتابوں میں گلابوں کی طرح

وہ جو خوابوں کے جزیرے میں نظر آتا ہے
میرے ادراک میں رہتا ہے کناروں کی طرح

بن کے احساس جو دھڑکن سے لپٹ جاتا ہے
ساتھ رہتا ہے محبت میں خیالوں کی طرح

دیکھنا خواب کی صورت میں نظر آئے گا
وہ جو پلکوں پہ چمکتا ہے ستاروں کی طرح

میں نے خوشبو کے لبادے میں جسے چوما تھا
میری ہر سانس میں شامل ہے وہ پھولوں کی طرح

وہ مرے شعر کا اک مصرعۂ تر ہو جیسے
گنگناتی ہوں اسے آج میں گیتوں کی طرح

اتنی اچھی تھی ملاقات کہ پہلے دن ہی
دل میں افروزؔ بسایا اسے سوچوں کی طرح

Leave a reply