دیکھنا یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی حکومت سوشل میڈیا کی طاقت کے بل پر کب تک پذیرائی برقرار رکھتی ہے۔ پی۔ڈی۔ایم چاروں خانے چت ہو کر عملی طور پر دوبارہ حصے بخروں میں بٹ کر اپنی اپنی بقاء کی جنگ کے روائتی مورچوں میں جاچکی ہے۔ پی پی پی اور ن لیگ اپنے سیا سی محرکات کی نمائش کیلیے ایکدوسرے کیخلاف چھوٹے پیمانے پر شرلیاں پٹاخے چھوڑتے رہتے ہیں اس سلسلے میں بلاول کے بیانات تو واضح ہیں لیکن ن لیگ محتاط بیان بازی پر کاربند نظر آتی ہے وہ سمجھتے ہیں اور شائید ٹھیک سمجھتے ہیں کہ اس طرح حکومت کی مخالفت بھی ہوتی رہے گی اور اپنا اپنا ووٹ بینک بھی مستحکم رہے گا وہ الگ بات ہے کہ مریم اور بلاول عمران مخالفت میں جتنا قریب آگئے تھے ان کے سپورٹرز شائید اتنا قریب کبھی نہ آسکیں۔ن لیگ، پی پی پی اور اب پی ٹی آئی ورکرز کے درمیان جو نظریاتی تکون بن گئی ہے اس کا پاٹنا اتنا آسان نہیں ہے۔ پرمشکل اور مزیدار کام یہ ہے کہ اس سیاسی تکون کے دو کونوں نے عمران کی مخالفت کیساتھ ساتھ ایک دوسرے سے مفاہمت کرتے ہوئے مخالفت کا تاثر بھی برقرار رکھنا ہے۔ عمران تو واضح طور پر دونوں کیخلاف ہے لیکن مصیبت ن لیگ اور پی پی پی کے ووٹرز کیلئے ہے کہ انہیں کبھی پتہ نیں چلتا کہ کب پی پی پی کی مخالفت کرنی ہے اور کب حمائیت۔ انکی جماعتوں کا چھوٹا ورکر یا بڑا لیڈر ان سے نہیں پوچھتا کہ کوئی ایک لائن کیوں نہیں اختیار کرتے اگر پی پی پی سے دوستی ہے تو دوستی کرنے دیں اور اگر مفاہمت ہی کرنی تھی تو ہماری ایک ایک دو دو نسلوں کو سیاسی مخالفت سے لیکر ذاتی دشمنیوں کی بھینٹ کیو ں چڑھایا گیا۔ پھر بھی اب کھل کر بتا دیں کہ بیانیہ کیاہے پی پی پی سے دوستی ہے کہ دشمنی۔سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن لگتاہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں دل کیساتھ ساتھ دماغ بھی نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ پھر سیا سی لیڈر کو سیاسی لیڈر کون کہے اگر اس کی لفظی یا عملی شعبدہ بازی عام جنتا جناردن کی سمجھ میں وقت پر آجائے، جب تک لیڈر کو ئی ایک داؤ سمجھ میں آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ن لیگ والوں کو اب سمجھ میں آیا کہ بے نظیر بھٹو کی بطور خاتون تضحیک نہیں کرنی چاہئے تھی، صدر ضیا ء الحق کے مارشل لاء کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئے تھا، جونیجو کی منتخب حکومت کیخلاف سازشیں نہیں کرنی چاہئیں تھی۔ اسی طرح آصف زرداری ایک طرف ببانگ دہل ٹی۔وی پر بیٹھ کر نواز شریف کو گریٹر پنجاب کو سہولت کار کہتا ہے غدار کہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ وہ لیڈر ہی کیا جس کو مجمع باندھ کر رکھنا نہ آتا ہو، جنتا جناردن ایک بات سمجھنے کی کوشش کرہی رہی ہوتی ہے کہ لفاظی کا اگلا بم گرادیا جاتا ہے جس میں پچھلی سمجھ بو جھ بھی غائب ہو جاتی ہے۔
شائید اقبال نے ایسے ذہنی محکوموں کے لئے بھی کہا تھا کہ؛
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اسکو حکمراں کی ساحری
وہ کون سا ایسا بڑے سے بڑا یا گھٹیا سے گھٹیا الزام ہے جو سیاسی لیڈران نے ایک دوسرے پر نہ لگایا ہو؟ بھینسوں کی چوری چکاری سے لیکر ملک سے غداری تک، قادیانیت تک، یہودیت تک، بدفعلیوں سے بدکرداری تک سب عوام کو مشتعل کرنے والے الزامات لگائے گئے اور لگائے جا رہے ہیں اور عوام اس بڑھی ہوئی شرح تعلیم کے باوجود بڑھکتی جارہی ہے۔ آج بھی سیاسی مخالفت کب ذاتی مخالفت میں بدل جائے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایک پارٹی کا سپورٹر دوسری پارٹی سے محض سیاسی سوچ کے اختلاف کی بنیاد پر دوستیاں، یارانے حتٰی کہ رشتے داریاں تک ختم کردیتا ہے۔ الیکشنز کی چہل پہل میں گالم گلوچ، ہاتھا پائی، ماردھاڑ، ہوائی فائرنگ بلکہ سیدھی فائرنگ قتل وغارت عام بات بن گئی ہے جس سے نہ جانے کتنی معصوم جانیں چلی جاتی ہیں، گھر وں کے واحد کفیل مارے جاتے ہیں،مرنے اور مارنے والے اصل میں دونوں مر جاتے ہیں، حالیہ ضمنی انتخابات میں سیالکوٹ، دینہ اور گجرات کے علاقوں میں ہونے والی قتل وغارت اس سیاسی وحشت کی تازہ مثالیں ہیں۔ سیاسی لیڈران کی زبان سے بھڑکائی آگ میں نہ جانے کتنے جیالے، متوالے، بے نام نشان مارے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتاکہ آکے پوچھے سناؤ جذباتی ورکر صاحب کیابنا، تمھارے ماں باپ، بھائی بہن یا بیوی بچوں کی کیا خیرخبر ہے۔ بڑے ٹی وی چینلز اس ساری آگ کو برابر ہوا دیتے ہیں بڑا اینکر وہی ہے جس کے شو میں شرکاء دست و گریبان ہوں یا کم از کم گالم گلوچ کر یں جو لفظوں سے دوسرے کو گھائیل کردے اسے ہی بڑا تجزیہ کار اور ماہر مانا جاتا ہے۔عوام جانے کب سیکھے گی کہ کس لیڈر کی کون سی بات صحیح ہے اور اسکو سپورٹ کرنا ہے اور کس لیڈر کی کون سی بات غلط ہے اسکی مخالفت کرنی ہے۔
اپوزیشن عملی طور پر ہے ہی نہیں اب حکومت ہی حکومت ہے، ہر بل پاس ہورہا ہے، ہر طرح کی قانون سازی میں کو ئی رکاوٹ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی جس طرح چاہے قانون سازی کر سکتی ہے اور انتظامی طور پر بھی پرانے عدالتی نظام کے باوجود انصاف کی فراہمی اور شہری سہولیا ت کے حوالے سے بہت کچھ کرسکتی ہے۔ دیکھتے ہیں اس ڈیڑہ دو سالوں میں کیا ایساکرتی ہے کہ عوام الناس اگلے الیکشنز میں بھی دوبارہ ووٹ دیتی ہے۔ بال اب پی ٹی آئی کے کورٹ میں ہے۔

رابطہ: +923238869398 لاہور، پاکستان

Shares: