اگرحکومت کے پاس جواب ہےتوعدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے؟ عدالت اٹارنی جنرل کے سوال پر برہم

0
46
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کےلیے صدارتی ریفرنس کی سماعت جاری ہے-

باغی ٹی وی : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم ،سٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منیب اختر سماعت کر رہا ہے خیبرپختونخوا اور سندھ کے ایڈووکیٹ جنرلزعدالت میں موجود ہیں سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آئےانہوں نے کہا کہ میں نے فریق بننے کی درخواست دی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بعد میں سنیں گے بیٹھ جائیں-

عدالت کے حکم پر اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعتوں کو نوٹسز کیے تھے وہ آج موجود ہیں؟ صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹسز جاری کریں؟-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلے ہی کیس کا حصہ ہیں جس پر عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹسز جاری کردیئے-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہےکشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے،کشمیر ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں قانون کسی کو ووٹنگ سے 48 گھنٹے پہلے مہم ختم کرنے کا پابند کرتا ہے-

چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں گی، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی-

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا، کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہے کہ قانون پر عمل کریں گے-

سماعت کے دوران جے یو آئی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہو گا ،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے جے یو آئی وکیل سے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی آبزرویشن پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نےستفسار کیا کہ جے یو آئی کا جلسہ تو عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہے؟

عدالت نے سندھ ہاوس کے معاملے پر آرڈر لکھوانا شروع کردیا-

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی پیش رفت پر مطمئن ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ بار کی درخواست کو یہ عدالت اب صرف سندھ ہاوس پر حملے تک محدود رکھے گی،سندھ حکومت کو اگر کوئی مسئلہ ہو تو عدالت سے رجوع کر سکتی ہے-

جسٹس مظہر عالم نے سندھ ہاؤس پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے-

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے حکم دیا کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا کہا سا تھ ہی اٹارنی جنرل کی جانب سے 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ضمیر تنگ کررہا ہے تو مستعفی ہو جائیں جس پر چیف جسٹس عمرعطابندیال 1992کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئی، آرٹیکل 63 اےکے تحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں-

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا ذکر ہے؟ جواب میں اٹاعنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے آرٹیکل 63،62 اے کو الگ الگ نہیں پڑھا جاسکتا عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی عام شہری اور رکن اسمبلی کےووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیا تھا، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کیلئے قوانین الگ الگ ہیں سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کی آبزرویشن دی عدالت نے کہا مسلم لیگ بطور جماعت کام نہ کرتی تو پاکستان نہ بنتا عدالت نے کہا مسلم لیگ کے ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو پاکستان نہ بن پاتا-

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں، ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی-

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں دی گی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حثیت میں سامنے آتا ہے سیاسی جماعتیں عوام کے لیے ایوان میں قانون سازی کرتی ہیں-

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ کہ پارٹی اراکین کو جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ چار مواقع پر اراکین اسمبلی کے لیے پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے ارٹیکل 63اے لایا گیا-

چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے-

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ٹکٹ لیتے وقت امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے؟زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟ اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی-

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے،ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال پر نہیں جاوں گا، یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑنا چاہیے-

جسٹس جمال مندو خیل نے سوال کیا کہ کیا فلور کراسنگ کی اجازت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے؟ کیا آپ پارٹی لیڈر کو بادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین نے پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا ہے،پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے سیاسی نظام کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے ضروری ہوتی ہے پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کے لیے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے-

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک تشریح تو یہ ہے انحراف کرنے والے کا ووٹ شمار نہ ہو، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ڈی سیٹ ہونے تک ووٹ شمار ہو سکتا ہے؟ اٹھارہویں ترمیم میں ووٹ شمار نہ کرنے کا کہیں ذکر نہیں-

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا- اٹارنی جنرل نے کہا یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں-

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا بلوچستان میں دونوں گروپ باپ پارٹی کے دعویدار تھے سب سے زیادہ باضمیر تو مستعفی ہونے والا ہوتا ہے –

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے-

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے –

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہیئں عدالت نے آرٹیکل کو 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے-

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ اور کتنا وقت لینگے؟ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ میں مزید 3 گھنٹے دلائل دوں گا-

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کل ہمارے ایک جج ریٹائر ہو رہے ہیں کیا پیر تک سماعت ملتوی کریں؟سب مشورہ دیں-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر رکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لے تو نظام کیسے چلے گا؟

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ آرٹیکل 63(4) کے تحت ممبر شپ ختم ہونا نااہلی ہے آرٹیکل 63(4) بہت واضح ہے –

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال ہی آرٹیکل 63(4) واضح نہ ہونے کا ہے خلاف آئین انحراف کرنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی جو آئین میں نہیں لکھا اسے زبردستی نہیں پڑھا جاسکتا، آرٹیکل 62ون ایف کہتا ہے رکن اسمبلی کو ایماندار اور امین ہونا چاہیے مغرب کےبعض ممالک میں فلورکراسنگ کی اجازت ہے-

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہرمعاشرے کے اپنے ناسورہوتے ہیں انہوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا سیاسی جماعتوں کےاندربحث ہوتی ہے؟-

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس سے زیادہ بحث کیاہوگی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کرپارٹی پرتنقید ہورہی ہے کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے؟ کیاخیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں؟-

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے ووٹ اگرڈل سکتا ہے تو شمار بھی ہو سکتا ہے،اگر حکومت کے پاس جواب ہے تو عدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے؟ اگر اس نقطہ سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں-

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹ پارٹی کے خلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63 اے قابل عمل نہیں ہو گا –

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کی ڈکلیئریشن پر کیا انکوائری کرے گا؟ کیا الیکشن کمیشن تعین کرے گا کہ پارٹی سے انحراف درست ہے کہ نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف یہ دیکھنا ہوگا کی طریقہ کار پر عمل ہوایا نہیں؟ –

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہو سکتا-

عدالت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کےلیے صدارتی ریفرنس کی سماعت کل ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی-

Leave a reply