آ گیا جشنِ آزادی؟ . تحریر : سید منعم فاروق

ایک سال کے طویل انتظار کے بعد ایک بار پھر اگست کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور جشنِ آزادی منانے کی تیاری مکمل جوش و خروش سے جاری ہیں، باجے اور پٹاخے بنانے والے کارخانے دِن رات اوور ٹائم پہ چل رہے ہیں، موٹر سائیکل مکینک سائلنسر سے نئی سے نئی آوازیں نکالنے کے آلے تیار کر رہے ہیں، کپڑوں کے برینڈ سفید اور سبز رنگ کے ملبوسات پہ سیل سیل کا واویلا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، ہوٹل اور ریسٹورنٹ پہ جشنِ آزادی کی سیل لگانے کی تیاریاں جوش و خروش سے جاری ہیں اوراس بات کی قوی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاکستانی قوم اس سال بھی جشنِ آزادی روایتی جوش و جزبے سے منائے گی، لیکن ایک منٹ۔

راقم یہ سطور لکھتے ہوئے سوچ رہا ہے کہ اس سب سے کیا حاصل ہو گا؟ ساتھ ہی ماضی کی کہانیوں، تصاویر اور تحریکِ پاکستان کی قربانیوں کی ایک جھلک نظر سے گزری تو میں لرز کر رہ گیا کہ ہمارے بزرگوں نے بیش بہا قربانیوں کے بعد جو ملک اس لیئے حاصل کیا تھا کہ اس ملک کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلا کر پوری دنیا کے لیئے ایک مثال بنایا جائے اور اِسی ملک کی آزادی کے دِن یہاں کیا کچھ ہو رہا ہے، اس ملک کو بنانے والے تو ایمان، اتحاد، تنظیم کا درس دے کر گئے تھے جبکہ چوہتر(74) سال بعد ہماری قوم ان تمام چیزوں کو بھول کر رشوت، کرپشن اور بے حیائی کو اپنا مِشن بنا چکی ہے، اس کالم میں ہم تحریکِ آزادیِ پاکستان پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اس قوم کے کردار اور ذمہ داریوں پر بات کریں گے۔

1857 کی جنگِ آزادی کے بعد سے ہی سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی تعمیر و ترقی پہ خصوصی توجہ دینا شروع کر دی تھی، انہوں نے مسلم کالج اور سائنٹیفک مدرسوں کے ذریعے مسلمانوں کو دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونے کا راستہ دکھایا جسکے بعد مسلمانوں نے سیاست کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول کے لیئے آواز اٹھانا شروع کی، مسلم لیگ کا قیام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی، ابتداء میں مسلمانوں کے قابض انگریز حکومت سے حقوق کی شکایت اور ان کو حاصل کرنے کے لیئے کوششیں رہی لیکن بعد میں ہندو سامراج کے دوغلے رویہ کو دیکھ کر قائد اعظم جیسے ہندو مسلم اتحاد کے داعی نے بھی مسلمانوں کی سیاست کو ہندوؤں سے مکمل الگ کر لیا، بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیئے ایک الگ ریاست کی بات کر کے اس تحریک کو ایک نئی منزل دکھائی جسکے بعد سترہ سال کی قلیل مدت میں مسلم لیگ نے قائد اعظم اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں انگریز کو برصغیر سے نکالنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لیئے الگ وطن کے قیام کا مشن بھی پورا کر لیا، اس عظیم مشن کی تکمیل کے دوران ہزاروں لوگوں نے اپنے جان، مال اور اسباب کی قربانیاں دی، ایسے ہی قیامِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کی بڑی تعداد نے پاکستانی علاقوں کا رخ کیا جو ہجرتِ پاکستان کہلائی، اس ہجرت کے دوران بھی قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم ہوئی ہزاروں لوگوں نے اپنے پیارے کھوئے، ہزاروں ماؤں کے بیٹے، ہزاروں بیٹیوں کے سہاگ اجڑے لیکن لوگوں کی آنکھوں میں صرف ایک خواب تھا ”پاکستان” اور مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا دیس بسایا جائے جہاں ترقی ہو، خوشحالی ہو، امن و امان ہو اور وہ ملک حقیقت میں اسلامی فلاحی ریاست ہو۔

آج جب پاکستان کو بنے قریبا چوہتر 74 سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن افسوس ہم نے پاکستان زندہ باد کہنا تو سیکھ لیا لیکن پاکستان زندہ آباد کیسے ہو گا یہ نہیں سمجھ سکے، ہم نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کا نعرہ تو بہت لگایا لیکن اس پر عمل اور اسکے فرائض سمجھنے سے محروم رہے، ہم نے ہر سال پاکستان کے قومی دنوں کے موقع پہ بڑے بڑے وعدے اور قسمیں توضرور کھائی لیکن عملی طور پہ ہم بدقسمتی سے بالکل صفر رہے، ہم نے عہد تو پاکستان کا نام روشن کرنے کا کیا لیکن حقیقت میں ہم ابھی تک شائددل و دماغ سے پاکستانی ہو ہی نہیں سکے، آج بھی ہر سال پاکستان کی آزادی کا دن ہمیں اس امید سے دیکھتا ہے کہ شائد پاکستان کے آزادی کا جشن منانے والا کوئی ”پاکستانی” مِل جائے، شائد پاکستان زندہ آباد کانعرہ لگانے والا حقیقت میں بھی اس ملک و قوم کا معمار بن جائے۔

تعارف: سید منعم فاروق کا تعلق اسلام آباد سے ہے، گزشتہ کچھ سالوں سے مختلف اداروں کے ساتھ فری لانسر کے طور پر کام کر رہے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا، کرنٹ افیئرز اور کھیلوں کے موضوعات پر ذیادہ لکھتے ہیں۔ ان سے رابطہ کے لیئے انکا ٹویٹر اکاونٹ: https://twitter.com/Syedmunimpk

Introduction: Syed Munim Farooq is Islamabad based freelance Journalist and columnist; He has been writing for different forums since 2012. His major areas of interest are Current Affairs, Digital Marketing, Web media and Journalistic affairs. He can be reached at Twitter: https://twitter.com/Syedmunimpk

Comments are closed.