عام خیال یہ ہے کہ اسلام کو عرب میں ایک عادلانہ نظامِ حکومت میں قائم کرنے میں جو دشواریاں پیش آئیں وہ تمام تر اہل عرب کی وحشت، بداوت اور جہالت کا نتیجہ تھیں۔ لیکن در حقیقت اس سے زیادہ یا اسی کے برابر خود وقت کا تمدن بھی اسلام کے عادلانہ نظامِ حکومت کا دشمن تھا اور اسکی مخالفت وحشت سے زیادہ اور دیرپا تھی چنانچہ 8ھ میں فتح مکہ کے بعد اگرچہ وحشی عربوں نے اسلام کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیں، لیکن وقت کے تمدن کا سر پر غرور اب تک بلند تھا چنانچہ نامہ اقدس کے جواب میں شہنشاہ ایران کا جواب اور قیصر روم کے حامیوں کے مقابلے میں غزوہ موتہ وغیرہ واقعات جو 9ھ میں پیش آئے اور اسکے بعد خلافت راشدہ میں ایرانیوں اور رومیوں سے لڑائیاں اسی سرکشی کا نتیجہ تھیں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چھٹی عیسوی میں جو آپ ص کی بعثت اور اسلام کے ظہور کا زمانہ ہے، دنیا کی تمام سیاسی قوتیں مشرق و مغرب کی دو عظیم الشان طاقتوں کے زیر سایہ تھیں مشرق کی نمائندگی فارس کے کسری اور مغرب کی قسطنطنیہ کے قیصر کر رہے تھے اور ان دونوں کے ڈنڈے عرب کے عراقی و شامی حدود پر ا کر ملتے تھے عرب کے وہ قبائل جن میں زرا بھی تہذیب و تمدن کا نام تھا وہ انہی دونوں میں سے کسی کے زیر اثر اور تابع تھے یمن ، بحرین ، عمان ، اور عراق ایرانیوں کے اور وسط عرب اور حدود شام رومیوں کے ماتحت یا زیر اثر تھے۔
چنانچہ نجمی خاندان نے مقام حیرہ میں ایرانیوں کی ماتحتی میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی جس کے درماں روا نعمان بن منذر وغیرہ تھے غسانی خاندان جو آپ ص کے زمانے تک قائم رہا رومیوں کی سرپرستی میں حدود شام پر حکومت کرتا تھا یمن میں مدت تک خود عرب کی مستقل خاندانی ریاستیں قائم تھیں۔ لیکن آخر زمانہ میں یمن خود ایرانیوں کے علم کے نیچے آگیا تھا چنانچہ آپ ص کے زمانے میں یمن میں باذان نامی ایرانی حاکم موجود تھا، عرب پر ان سلطنتوں کا اس قدر اقتدار قائم ہو چکا تھا کہ خود عربوں کے ذہن میں جب کسی نظامِ حکومت کا خیال آتا تھا تو اسی ایرانی یا رومی نظامِ حکومت کا خیال آتا تھا، ان سے الگ ہو ان سے بالاتر کسی نظام زندگی کا تخیل ان کے ذہن کی گرفت سے بالاتر تھا۔
اس بنا پر اسلام عرب میں جو نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتا تھا اسکے لئے صرف یہی کافی نہ تھا کہ عرب کی قدیم وحشت کو مٹا کر اسلامی تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی جائے بلکہ سب سے مقدم کام یہ تھا کہ عرب کو غیر قوموں کے دماغی تسلط سیاسی مرعوبیت اور ان کے اخلاقی و تمدنی اثر سے آزاد کرایا جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر نہ صرف عربوں کو بلکہ سارے عالم کو انسانوں کے خود ساختہ قانون کی غلامی سے نکال کر قانون الٰہی کی اطاعت و فرمانبرداری میں دے دیا جائے اور بتایا جائے کہ قانون الٰہی کو چھوڑ کر دوسرے انسانی قوانین کی پابندی کرنا شرک کا دوسرا راستہ ہے لیکن جیسا کہ اسلام کے تمام فرائض و اعمال میں ترتیب و تدریج ملحوظ رہی ہے اس طرح اسلام کے نظام میں حکومت میں بھی بتدریج ترقی ہوتی گئی چنانچہ اگرچہ آپ ص ساری دنیا کی اصلاح کے لئے آئے تھے مگر آپ ص نے اپنا کام عرب سے شروع کیا تاکہ ایک ایسی صالح جماعت کا ظہور ہو جو آپ ص کے سامنے بھی اور آپ ص کے بعد بھی اس فرض کی تکمیل میں مصروف رہے۔
لیکن یہی تدریجی ترتیب خود اہل عرب کی اصلاح میں بھی ملحوظ تھی چنانچہ سب سے پہلے آپ ص نے عرب کے اندرونی حصے یعنی تہامہ ، حجاز اور بخد کے لوگوں کے سامنے اسلام کو پیش کیا اور آپ ص کی 23 سالہ زندگی کے تقریبا سولہ سترہ سال انہی قبائل کی اصلاح و ہدایت میں نذر ہو گئے یہی وجہ ہے کہ مدینہ کے نخلستان کی طرح اگرچہ ہجر ویمامہ کے سبزہ زار بھی اسلام کو اپنے دامن میں پناہ دینے کے لئے آمادہ تھے اور قبائل یمن کے ایک بڑے رئیس طفیل دوسی نے آپ ص کو قبیلہ دوسی کے ایک عظیم الشان قلعے کی حفاظت میں لینا چاہا تھا لیکن آپ ص نے ان متمدان مقامات کو چھوڑ کر مدینہ کی سنگلاخ زمین کو دارالہرہ بنایا وہ اگرچہ منافقین اور یہود کی وجہ سے مکہ سے زیادہ پر خطر تھا اور ابتدا میں مہاجرین رضی کے لئے اسکی آب و ہوا سازگار نہ تھی تاہم آپ نے اسی کی طرف ہجرت فرمائی لیکن جب رفتہ رفتہ عرب کے اس حصہ میں کافی طور پر نظام اسلام قائم ہو گیا اور صلح حدیبیہ نے عرب کے مرکز یعنی مکہ کا راستہ صاف کر دیا اور وہ فتح ہو گیا تو اب عرب کے دوسرے حصوں کی طرف توجہ کا وقت آ گیا اس بناپر اسلام کے دائرہ عمل کو وسعت دی گئی اور عرب کے ان حصوں کی طرف توجہ فرمائی گئی۔
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved