پاکستان کی معروف اور نامور شاعراحمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے آج 12 برس بیت گئے۔
باغی ٹی وی : ماہر تعلیم ونامورشاعراحمد فراز12 جنوری 1931 کوکوہاٹ میں پیدا ہوئے ان کا اصلی نام سید احمد شاہ تھا لیکن وہ اپنے قلمی نام احمد فراز سے مشہورہیں کیونکہ انہوں نے اپنی شاعری فراز کے تخلص سے لکھی انھوں نے ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد شعروشاعری کا آغاز کر دیا، وہ مختلف تعلیمی اداروں میں ماہر تعلیم کے طور پر بھی اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے اردو شاعر ، اسکرپٹ رائٹر اور پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین تھے
اپنی زندگی کے دوران ، انہوں نے ملک میں فوجی حکمرانی اور بغاوت پر تنقید کی جس پر انھیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پابند سلاسل بھی رکھا گیا۔
احمد فراز کی شاعری پاکستان ، ہندوستان کے دنیا بھر میں بے حد مقبول تھی۔ وہ معاشرتی اجتماعات (مشاعرے) میں بہت زیادہ طلبگار شاعر تھے جہاں وہ اپنی آواز میں اپنی شاعری سناتے تھے۔ احمد فراز کا اکثر موازنہ محمد اقبال اور فیض احمد فیض سے کیا جاتا تھا۔
مہدی حسن ، غلام علی ، جگجیت سنگھ اور رونا لیلیٰ جیسے گلوکاروں نے فلموں اور محافل موسیقی میں ان کی غزلوں کو گا کر ان کی شاعری کو بے حد مقبول کیا۔
احمد فرازنے ہزاروں نظمیں کہیں اوران کے 14 مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں تنہا تنہا، دردآشوب، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بود لک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ شامل ہیں۔ احمد فرازکی تصانیف کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگو سلاویہ، سویڈش، روسی، جرمنی و پنجابی میں ہوئے۔
احمد فرازاردو، فارسی، پنجابی سمیت دیگرزبانوں پربھی مکمل عبوررکھتے تھے احمد فراز نے اسلام آباد ، پاکستان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
انہیں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ 25 اگست 2008 کو گردوں کے عارضہ میں مبتلا ہو نے کی وجہ سے ان کا اسلام آباد میں انتقال ہوگیا ، اور بعد ازاں حکومت پاکستان نے ان کی شاعری اور اردو ادب میں گراں قدر خدمات پر ہلال پاکستان سے نوازا۔