آئندہ دنوں میں مختلف ممالک میں منکی پاکس کے مزید کیسز بھی سامنے آسکتے ہیں،ڈبلیو ایچ او

0
51

عالمی ادارہ صحت( ڈبلیو ایچ او) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ دنوں میں مختلف ممالک میں منکی پاکس کے مزید کیسز بھی سامنے آسکتے ہیں یہ وائرس انسانوں سے دوسرے انسانوں کو قریبی جسمانی رابطے کے باعث لاحق ہو رہا ہے۔

باغی ٹی وی : برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اب تک 12 ایسےممالک میں منکی پاکس کے کیسز سامنے آچکے ہیں جہاں اس سے پہلےیہ وائرس موجود نہیں تھارپورٹ ہونے والے کیسزمیں 92 مصدقہ اور 28 مشتبہ کیسز شامل ہیں خدشہ ہے کہ یہ وائرس دوسرے ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے۔اس خدشے کے پیش نظر ان ممالک کی نگرانی بھی بڑھا دی گئی ہے جہاں ابھی تک یہ بیماری رپورٹ نہیں ہوئی۔

منکی پاکس یورپ کے بعد امریکا پہنچ گئی،پہلا کیس رپورٹ

ڈبلیو ایچ او نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک کی معلومات کے مطابق یہ وائرس انسانوں سے دوسرے انسانوں کو قریبی جسمانی رابطے کے باعث لاحق ہو رہا ہے۔

متعدی بیماریوں کے ماہر ڈبلیو ایچ او کے اہلکار ڈیوڈ ہیمن نے کہا ہے کہ اب یہ جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کی طرح پھیل رہا ہے اور دنیا بھر میں اس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ گیا ہے انسانوں کا قریبی رابطہ اس وائرس کی منتقلی کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ اس بیماری کے بعد پیدا ہونے والے مخصوص گھاؤ متعدی ہوتے ہیں بیمار بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والدین اور طبی عملے کے افراد خطرے میں ہیں۔

روئٹرز کے مطابق بہت سے کیسز کی نشاندہی جنسی صحت کے کلینکس میں کی گئی ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں منکی پاکس کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق رہنمائی اور مشورے بھی فراہم کریں گے۔

گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا تھا کہ منکی پاکس انفیکشن کے 11 ممالک میں 80 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور جن ممالک میں منکی پاکس انفیکشن کے کیسز رپورٹ ہوئے ان میں فرانس، بیلجیم، جرمنی، آسٹریلیا، اسپین، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔

خوراک کی شدید قلت کے باعث ہم بھوک سے مرنے والے ہیں، سری لنکن وزیراعظم کی دنیا سے…

خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کےمطابق اس سے پہلے یہ وائرس صرف افریقی ممالک میں نظر آتا تھاپہلی بار یہ وائرس افریقی ممالک سے نکل کر دنیا میں بھی پھیل رہاہے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات زیادہ تشویشناک ہےکہ منکی پاکس کی تشخیص ایسے افراد میں بھی ہوئی ہے جو کبھی افریقہ گئے ہی نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس یورپ اور امریکہ کے اندر بھی پھیل چکا ہےتاہم ان کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے کسی بڑی آبادی کو نقصان پہنچنے کا فی الحال امکان موجود نہیں۔

ماہرین کے مطابق منکی پاکس جنگلی جانوروں خصوصاً چوہوں اور لنگوروں میں پایا جاتا ہے۔ اور جانوروں سے ہی انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ تاہم متاثر شخص کے قریب رہنے والے افراد میں بھی وائرس منتقل ہونےکا امکان ہےپہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958 میں ہوئی تھی،ایک تحقیق کےدوران سائنسدانوں نے بندروں کے جسم پر کچھ پاکس یعنی دانے دیکھے تھے جنہیں منکی پاکس کا نام دیا گیا تھا انسانوں میں منکی وائرس کے پہلے کیس کی تشخیص افریقی ملک کانگومیں 1970 میں ایک نو سالہ بچے میں ہوئی تھی۔

سری لنکا میں ایمرجنسی کا نفاذ ختم کر دیا گیا

منکی پاکس کا شکار ہونےوالے افراد میں بخار، سردی لگنا، تھکن اور جسم دردر کی شکایات نمایاں ہوتی ہیں وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد کو شدید خارش اور جسم کے مختلف حصوں پر دانے نکلنے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

منکی پاکس کے اثرات پانچ سے تین ہفتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور عام طور پر اس سے متاثرہ افراد دو سے چار ہفتوں کے درمیان صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ جن میں سے اکثر کو اسپتال منتقل کرنے نوبت نہیں آتی۔یہ وائرس 10 میں سے ایک فرد کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے اوربچوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول نے دنیا بھر کے ماہرین کو یہ مشورہ دیا کہ منکی پاکس سے متاثرہ افراد کو آئسولیشن میں رکھا جائے اور زیادہ متاثرہ افراد کو سمال پاکس کی ادویات دی جائیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً ایک درجن افریقی ممالک میں اس وائرس کے ہزاروں کیسز ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 6000 کا کانگو اور 3000 کا تعلق نائیجیریا سے ہوتا ہےحالیہ لہر میں جن ممالک میں منکی پاکس انفیکشن کے کیسز رپورٹ ہوئے ان میں فرانس، بیلجیم، جرمنی، آسٹریلیا، اسپین، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔

سابق نائب افغان صدر رشید دوستم سمیت40جلا وطن افغان رہنماؤں کا قومی مزاحمت کونسل بنانےکا فیصلہ

Leave a reply