قیدی
سلیم اللہ صفدر

اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجرہ پنجرہ ہی ہوتا ہے چاہے سونے کا ہو…. چاہے لوہے کا. اور اس سزائے قید و بند پر پر جتنا دکھ کا اظہار کیا جائے، کم ہے…! لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ ہماری تاریخ میں کون سا ایسا عالمِ دین ہے جسے حاکم وقت نے قید نہیں کیا.عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے لیکر امام احمد بن حنبل تک… محمد بن قاسم سے لیکر امام ابن تیمیہ تک…. کون سا بزرگ ہے جو قید نہ ہوا ہو لیکن اس موقع پر کسی نے بھی اپنے ساتھیوں کو خروج کی دعوت نہیں دی بلکہ چپ چاپ قید برداشت کر لی.

میں یہ نہیں کہتا کہ ہر موقع پر حاکم وقت نے درست کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ میں ہر موقع پر حاکم وقت کی ہی طرف سے ظلم نظر آتا ہے…. خاص طور پر جب محمد بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ کو ہندوستان کے محاذ جنگ سے واپس بلایا گیا تھا تو ان کے ساتھیوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس حکم میں سازشوں کی بو آ رہی ہے اور خلیفہ وقت آپ کے ساتھ اچھا نہیں کرے گا لیکن محمد بن قاسم نے قید قبول کر لی لیکن خلیفہ وقت کے خلاف خروج قبول نہیں کیا اور نہ ہی لوگوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ اس ظلم و زیادتی کے خلاف ہر سطح پر بولنا شروع کر دو. وہ اپنے نظریئے پر صبر و استقامت سے قائم رہے اور ایک دن اسی قید کے دوران انہیں شہید بھی کر دئیے گئے.

مجھے نہیں معلوم کہ حاکم وقت کی کیا مجبوری ہے…. کیسا پریشر ہے… یا کیا حکمت عملی ہے اور نہ میں اس کا وکیل ہوں… لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ اگر وہ چاہے تو صرف ایک بزرگ کو نہیں سب کو قید میں ڈال دے… چاہے تو صرف قید میں ڈالنے کی بجائے دشمن کے حوالے کر دے. اس وقت اسے اللہ کے علاوہ روکنے والا کوئی نہیں. لیکن یہ بھی یقین ہے کہ اس سے پوچھنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے. اللہ تعالیٰ نے اسے حکمرانی دی ہے اور قیامت والے دن اس سے اس حکمرانی کا سوال بھی ہونا ہے.

میں اس وقت اپنے بیوی بچوں یا چند افراد کا ذمہ دار ہوں اور مجھ سے انہی کے بارے میں قیامت کے روز پوچھا جائے گا لیکن وہ اس وقت پورے ملک کا ذمہ دار ہے اور اس کی گردن میں چند نہیں لاکھوں طوق ہوں گے جو اس نے قیامت والے دن اپنی گردن سے آزاد کروانے ہیں. اگر اسے احساس ہے تو اچھی بات ہے… نہیں تو اسے احساس ہو جائے گا. لیکن ہمارا کام اس کے خلاف رائے عامہ قائم کرنا نہیں… اس کے خلاف کسی قسم کا محاذ کھڑا کرنا نہیں.
یعنی جب تک حاکمِ وقت کرسی پر موجود ہے تب تک ہمارے اسلاف نے کسی حاکم کے خلاف تحریکیں کھڑی نہیں کیں… خروج نہیں کیا چاہے جو کچھ بھی ہو جائے. لیکن جب وہ حاکم نہیں رہا اور ایک معاشرے کا عام فرد بن گیا تو پھر ہماری شریعت منع نہیں کرتی کہ اس کے فتنے کے خلاف لوگوں کو آگاہ نہ کیا جائے. عین ممکن ہے کہ میں آج اس کی وکالت کرتا نظر آ رہا ہوں تو کل اس کی کرسی سے اترتے ہی سب سے زیادہ میں ہی اس کے خلاف لکھوں لیکن فی الحال میں یہی کہوں گا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اسے اس کام سے روکنا مشکل ہے اور اس سارے منظر کے پیچھے چھپی ہوئی اس کی مجبوریاں وہی زیادہ بہتر جانتا ہے۔ رعایا ہونے کے ناطے جائز امور میں اس کی اطاعت اور ملکی سلامتی و استحکام ہم پر لازم ہے۔
اب آخری بات… میرے وہ احباب جو اس بات پر شدید دکھی ہیں اور طعنہ زنی کر رہے ہیں کہ پچھلی حکومت کے دوران مودی کے یار کے خلاف تو خوب کمپین چلائی گئی لیکن اس بار زبان کو تالے پڑے ہوئے ہیں تو وہ ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں… کمپین اس وقت شروع ہوئی جب حلقہ NA 120 خالی ہوا. ورنہ اس سے قبل تو وہ ہمارا حکمران تھا اور ہم نے اس کے بارے میں ہر معاملے میں خاموشی ہی اختیار کی . لیکن جب اسے حکمرانی سے ہٹا دیا گیا… تب اسے بیشک مودی کا یار کہہ لیں یا یہودی ایجنٹ… اس سے ملکی استحکام میں کوئی فرق نہیں پڑتا. اور اس کے خلاف بعد میں کمپین چلانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ اگلی بار اسے ووٹ نہیں ملے اور وہ مقصد کافی حد تک کامیاب بھی رہا.

اس لیے گزارش ہے کہ ایسے موقع پر دکھ کا اظہار ضرور کریں اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں مگر مہذب قومکے فرد کے ناطے اور کوئی ایسا اقدام نہ اٹھائیں جس میں قومی خسارہ ہو. کیونکہ جب نظریہ واضح طور پر موجود ہو اور اپنا دل مطمئن ہو تب اس طرح کے طعنے نہ تو کوئی فائدہ دیتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا ابال پیدا کر سکتے ہیں.

تحریر :سلیم اللہ صفدر

#صفدریت

#غبارِ_دل

Shares: