اِک عہد جو کیا تھا ،وفا ہو گیا
بقلم: جویریہ بتول

یہ اپنا وطن ہے اپنی شان…
نظریہ اِس کا ہے اپنا ایمان…!

کیا تھا عہد جب آسماں تلے…
قافلے وفا کے پھر یوں چلے…
قدموں سے ایسے قدم وہ ملے…
روک نہ سکا جنہیں کوئی طوفان…

وہ جو خواب تھا اقبال کا…
تھا جواب وہ ہر اِک سوال کا…
تھا عزم وہ خاتمۂ زوال کا…
رفعتوں کے سفر کا ہوا تھا اعلان…

کی قائد نے یوں نظریہ کی وضاحت…
کہ دنگ کھڑی تھی ہر ایک فصاحت…
ہار گئی تھی جب ہر سُو شقاوت…
منہ دیکھتا رہا، عدو ہو کر حیران…

دامن میں پھر لُہو کے دریا بَھرے…
سروں پہ بہنوں کی ردائیں اوڑھے…
وہ بچے، عورتیں اور جواں و بوڑھے…
بن گئے سب طُلوعِ سَحَر کی اذان…

اِک عہد جو کیا تھا ،وفا ہو گیا…
بچے بچے کی زباں پہ صدا ہو گیا…
نغمۂ آزادی کی پھر جو نَوا ہو گیا…
جہاں میں بن گئی اپنی یہ پہچان…

یہ دھرتی ہی نہیں ایک عقیدہ تھا…
حقیقت کا کُھلا جو جریدہ تھا…
مقابل جس کے باطِل سَر بریدہ تھا…
تھاصدیوں کاسینے میں مچلتا ارمان…

آج بھی ہے ضرورت اُسی اتحاد کی…
ترقئ علوم و فنون اور ایجاد کی…
کردارِ انسانیت کی پختہ بنیاد کی…
خزاں کی زَد میں ہو نہ کبھی گُلستان…

یہ اپنا وطن ہے اپنی شان…
نظریہ اس کا ہے اپنا ایمان…!
==================================

Shares: