اک شمع جلا ایسی
تحریر: عشاء نعیم

کسی بھی معاشرے میں جیسا کہ کہا جاتا ہے نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں تو اس نوجوان نسل سے مراد صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاں بھی ہیں ۔ آج کے دور میں کسی بھی معاشرے میں لڑکی کا کردار انتہائی اہم ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں بد قسمتی سے بیٹی کا کردار محدود سمجھا جاتا ہے اور بیٹے کا کردار اہم ۔ سچ تو یہ ہے کہ معاشرے کی اصل روح بیٹی ہے ۔
بیٹی ۔رحمت ،اور خوشی کا دوسرا نام ہے تو یہی بیٹی ہے جسے پاکر ان جانے خوف میں بھی گھر جاتے ہیں ۔
اس خوف کی وجہ دنیا بھی اور بیٹی کا دنیا سے انجان ہونا بھی ہوتا ہے ۔
والدین کا یہ خوف بہادر اور باشعور بیٹیاں جوں جوں بڑی ہوتی ہیں اتار دیتی ہیں اور والدین خوشی و سکون محسوس کرتے ہیں ۔لیکن بھولی بھالی اور دنیا سے انجان بیٹیاں جب اس دنیا کے مکرو فریب اور داؤ پیچ کو نہیں سمجھ پاتیں، جب وہ نہیں جان پاتیں کہ اصل زندگی ہے کیا اور وہ ہر چمکتی چیز سونا سمجھ لیتی ہیں یا ہر میٹھا بول خلوص سمجھ لیتی ہیں تو یہی بیٹیاں ماں باپ کو کمزور کر دیتی ہیں۔یہی بیٹیاں جو خوشی کا باعث ہوتی ہیں ماں باپ کےلئے درد اور دنیا کے لئے بوجھ بن جاتی ہیں۔
یہی بیٹی مثالی اور اعلی کردار پیش کر کے کئی بیٹیوں کے لئے راہیں کھول دیتی ہے اور یہی ایک بیٹی ذرا سی غلطی سے خود تو راہیں کھوتی ہی ہے لیکن کتنے ہی گھرانے اس ایک مثال کو لے کر اپنی بیٹیوں کو اندھیروں کی نظر کر دیتے ہیں۔
ہمارے اپنے گھر کی مثال ہے کہ میرے دادا ابو بیٹیوں کو پڑھانے کے شدید مخالف تھے۔ وجہ معاشرے کی قائم کردہ مثالیں، وہ چند ایک نا سمجھ لڑکیاں تھیں جو نادانی کر بیٹھی تھیں۔میری پھوپھیاں اسی وجہ سے علم کی روشنی سے محروم رہیں، میرے بڑی بہنیں بھی سکول کا منہ نہ دیکھ پائیں ۔ لیکن والدہ کو تعلیم سے بہت محبت تھی خود بھی تھوڑا سا پڑھی ہوئی تھیں لیکن بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کا شوق تھا۔ اسی لیے ہر قسم کی رکاوٹ کو بالآخر عبور کرتے ہوئے مجھے سکول داخل کروادیا ۔
گھر میں ہر وقت یہی سنا کہ پڑھائی لکھائی ٹھیک نہیں (ایک بہت بڑے گھر میں پورشن تھے دو تین فیمیلز اکٹھی تھیں وہ سب باتیں کرتے تھے۔)
یہی وجہ ہے کہ جب مجھے سکول داخل کروایا گیا اور میں نے شعور کی سیڑھی پہ قدم رکھا تو اس قسم کی بات سے خوف کھانے لگی ۔پڑھائی کا جنون تھا اور کسی جھوٹی بات کے الزام سے بھی خوف زدہ رہتی۔کسی لڑکی کی ذرا سی ایسی بات پتہ چلتی دوستی ہی چھوڑ دیتی کہ کہیں اس کی وجہ سے مجھ پہ الزام نہ آ جائے یا میرا کردار نہ خراب ہو جائے۔
ایسی ویسی بات سے ہی نفرت ہو گئی ۔
ہر وقت اپنی عزت اور ماں باپ کی عزت ملحوظ رہتی ۔
الحمداللہ، اللہ کی رحمت سے جب میٹرک کیا تو دادا ابو نے فخر سے کہا مجھے پچھتاوا ہے کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو نہیں پڑھایا ۔میری پوتی نے میرا سر فخر سے بلند کردیا۔
گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور الحمدللہ اپنے ماں باپ کو اتنا اعتماد دیا کہ بڑی آپیاں بھی پڑھنے لگیں۔
پھر پھوپھیوں کی بچیاں بھی سکولز جا پہنچیں ۔
جب ایک لڑکی پڑھ لکھ جاتی ہے تو اس کی اولاد لازمی پڑھی لکھی ہوتی ہے جبکہ ایک پڑھے لکھے مرد کی اولاد لازمی پڑھی لکھی نہیں ہوتی ۔
اس کا مطلب ہے ایک لڑکی کئی نسلوں تک اپنا کردار پہنچاتی ہے۔
یوں اک چراغ سے اگلا چراغ جلتا چلا گیا الحمدللہ۔
علم کے زیور سے آراستہ ہونے کی بنا پر شرک و واحدانیت کا فرق سمجھ آیا، دین کی سوجھ بوجھ پختہ ہوئی تو الحمدللہ واحدانیت کو اپنایا جس سے اسی طرح روشنی بڑھی جس طرح تعلیم سے بڑھی تھی اور نہ صرف گھر میں ہر شخص موحد ہوتا چلا گیا بلکہ یہ روشنی بھی بڑھتی چلی گئی اور پھوپھیوں کے دلوں کو روشن کرتی چلی گئی۔
اس کا مطلب ہے بیٹی کا کردار بہت ہی اہم ہے۔بیٹی، وہ فرد ہے جو اپنے کردار سے آپ کا سر فخر سے بلند تو کرتی ہی ہے کئی گھروں تک اس کے کردار کی خوشبو پہنچتی ہے جس سے وہ گھر بھی متاثر ہوتے ہیں اور اپنے کردار سے کئی گھروں کو اندھیروں میں ڈبو سکتی ہے ۔
اس لیے اے بنت حوا!
تو اپنے کردار سے جنت، جہنم کا فیصلہ تو کرتی ہی ہے معاشرے میں بھی دیکھ لینا تم کیا کیا اثرات مرتب کر سکتی ہو۔
اگر پڑھتی ہو ،جاب کرتی ہو یا سوشل میڈیا پہ ہو ہر جگہ جو کردار ادا کرو گی وہ کردار صرف تمہارا ذاتی نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اچھا یا برا وہ مثال بن جائے گا اور دیگر بیٹیوں کے لئے راہ متعین کر دے گا۔
سوشل میڈیا پہ بیٹھی ہو تو ان ہاتھوں کے استعمال سے پہلے کچھ حروف کو ملا کر جو لفظ بناتی ہو تو دھیان رکھنا یہ کس کو کیا لکھ رہی ہو۔ کہیں تمہارے ہاتھوں سے نکلے چند لفظ جو جملہ بن جاتے ہیں کسی کے گھر پر بم بن کر نہ گر جائیں، کسی کے آشیانے کو آگ نہ لگا جائیں ۔
کسی کی زندگی جہنم نہ بنادیں ۔کسی کا چین نہ لے جائیں ۔تمہارے ماں باپ کا سر شرم سے نہ جھکا جائیں ۔تمہیں اندھیروں میں نہ لے جائیں ۔
ماں باپ جو تمہارے ناز، نخرے اٹھاتے ہیں باپ دن بھر محنت کرتا ہے اور ماں گھر میں جس طرح محنت کرتی اور گھر کو سنبھالتی ہے تم پہ وہ دونوں اعتماد کرتے ہیں تم بھی اپنے کردار سے ان کی محبتوں اور محنتوں سے اس کا سر فخر سے بلند کردو تو جنت کا ساماں بھی بنو۔
انھیں اپنے دئیے گئے اعتماد سے رسوا کر کے پچھتاوا نہ لگاؤ کہ کیوں اعتماد کیا ۔
صرف ماں باپ ہی نہیں روتے معاشرے کے دیگر ماں باپ بھی خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور اس مثال کو لے کر بیٹیوں پہ اعتماد نہیں کرتے اور وہ اندھیروں کی نظر ہو جاتی ہیں ۔یعنی تمہارے کردار کی اک شمع سے جہاں کئی شمع جلتی ہیں وہیں اک غلط قدم اور اندھیرے میں قدم رکھ دینے سے کئی اور بھی اندھیروں کی نظر ہو جاتی ہیں ۔سو
ہر قدم پہ دھیان رکھنا
یوں ہی نہ نادان بننا
جلا کر چراغ روشنی کرنا
کہیں بھٹک کر نہ پشیمان ہونا

Shares: