اک زوال عروج سے ہو کر
میں عروج زوال تک پہنچا

شارق جمال

22 جولائی 2023 تاریخ وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممتاز بااصول پولیس آفیسر ڈی آئی جی شارق جمال 22 جولائی 2023 کی علی الصبح ڈفینس سوسائٹی لاہور میں اپنے ایک دوست کے فلیٹ میں وفات کر گئے ۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق شارق جمال صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کے درمیاں کافی عرصہ سے ناراضگی چلی آ رہی تھی ان کی اہلیہ ایک عرصہ سے اپنی اکلوتی بیٹی کے ہمراہ امریکہ میں مقیم تھیں ۔ شارق جمال ایک بہت باصلاحیت ، بہادر اور بااصول پولیس آفیسر کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے شاعر اور کالم نگار بھی تھے ۔ شارق جمال کو اس وقت بہت شہرت ملی جب انہوں نے مشہور زمانہ موٹروے جنسی زیادتی کیس کے ملزم عابد ملہی کو 3 ماہ کی طویل جدوجہد کے بعدچ گرفتار کر لیا تھا جسے عدالت سے اس جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی ملزم نے عابد ملہی نے موٹر وے پر ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ پنجاب میں اکثر مشکل کیسز شارق جمال کو دیئے جاتے تھے اور وہ ان کی توقعات پر پورے اترتے تھے۔ شارق جمال 7 دسمبر 1967 کو مقبول روڈ اچھرہ لاہور میں پیدا ہوئے تھے ۔ وفات کے بعد انہیں ان کے آبائی قبرستان اچھرہ لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔ شارق جمال ایس پی ، ایس ایس پی ، ڈی پی او اور ڈی آئی جی پولیس کے اہم عہدوں پر فائز رہے وہ 20 گریڈ کے آفیسر تھے اور اب اگست 2024 میں وہ 21 گریڈ پر ترقی پانے والے تھے وہ اس کیلئے تربیتی کورس بھی مکلم کر چکے تھے اور وہ فروری 2023 سے او ایس ڈی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن لاہور میں تعینات تھے ۔ شارق جمال کے اب تک دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ” آتش زیر پا ” اور” فسانہ کون و مکاں ” شامل ہیں ۔

شارق جمال صاحب کی شاعری سے ایک خوب صورت غزل اور چند اشعار قارئین کی بصارتوں کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیرے حسن و جمال تک پہنچا
میں بھی کتنے کمال تک پہنچا

بعد مدت کے ذہن آشفتہ
ایک نازک خیال تک پہنچا

اے مرے شوق بے مثال مجھے
آج اس بے مثال تک پہنچا

اک زوال عروج سے ہو کر
میں عروج زوال تک پہنچا

ذہن آزاد ہو گیا میرا
جب یقیں احتمال تک پہنچا

تذکرہ حسن کے تناسب کا
پھر ترے خد و خال تک پہنچا

اک معمہ تھا میرا مستقبل
کتنی مشکل سے حال تک پہنچا

اس طرح میں ترے قریب آیا
جیسے ممکن محال تک پہنچا

یہ ہوس بھی کمال تک پہنچی
وہ بدن بھی کمال تک پہنچا

اک گلہ زندگی کے ہونے کا
ہوتے ہوتے ملال تک پہنچا

اک خلش سی رہی کہیں دل میں
ہجر جب بھی وصال تک پہنچا

تھا ازل سے سوال کے اندر
جو جواب اب سوال تک پہنچا

شارقؔ اس عشق کے وسیلے سے
میں جلال و جمال تک پہنچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود پہ الزام دھر گیا ہوں میں
کام مشکل تھا کر گیا ہوں میں

کل بھی کچھ درد کم نہ تھا لیکن
آج تو جیسے مر گیا ہوں میں

وہی تنہائی کا عالم وہی صیاد کا خوف
اپنا زندان ہوں تو آزاد نہ کر لوں خود کو

Shares: