ایک نہ تھمنے والا مہنگائی کا طوفان تحریر: انیحہ انعم چوہدری

جہاں پاکستانی عوام کو دوسرے مسائل درپیش ہیں وہی پر ایک بہت بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جو کسی بھی عام شہری اور مزدوری کرنے والے شخص کے نزدیک کسی ہارٹ اٹیک سے کم نہیں ہے۔ موجودہ حکومت سے جب مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں تو بظاہر ہمیں ان سے صرف ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ کورونا وائرس کی خوفناک لہر کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی نے اپنے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بری طرح متاثر ہوا ہے اور لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں لیکن حکومت ان تمام معاملات کے ساتھ ان ممالک کا تذکرہ بالکل نہیں کرنا چاہتی جنہوں نے اس مشکل دور میں بھی اپنی معیشت کو مستحکم کیا ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کی کرنسی پاکستان سے ڈبل ہوگئی ہے اور انہوں نے کورونا وائرس کی خوفناک لہر میں اپنی معیشت کو غیر مستحکم نہیں ہونے دیا لیکن جب ہم موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر سوالات اٹھاتے ہیں تو ہمیں یہ جواب سننے کو ملتا ہے کہ چونکہ بنگلہ دیش نے آج تک کوئی جنگ نہیں لڑی جس کی وجہ سے اسکی معیشت پاکستان سے بہتر ہے لیکن کیا وہ اس موقع پر افغانستان کے حالات پر کچھ کہنا پسند کریں گے کہ انہوں نے ضروریات اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں چالیس فیصد تک کمی کرنے کے احکامات کیوں جاری کیے ہیں؟ کیا افغانستان نے بھی کبھی جنگ نہیں لڑی؟ کیا افغانستان روز اوّل سے جنگی محاذ کا شکار رہا ہے یا نہیں؟ یہ عجیب منطق ہمیں حکومتی سوشل میڈیا ٹیم کے کارکنان سے سننے کو ملتی ہے۔ بظاہر موجودہ حکمران جماعت اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے بہتر بناتی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ اپنی ناکام پالیسیوں کا ملبہ اپوزیشن کی کرپشن کی نظر کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن بظاہر ہمیں وہ اس میں بھی کامیاب ہوتے نظر نہیں آئے۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ حکمران جماعت اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے کے بعد رعایا کے سامنے اپنی بہترین پالیسیوں کو رکھ کر انکے دلوں میں اپنا مقام پیدا کر سکتی ہے یا اپنے سیاسی مخالفین کو کرپشن، غداری جیسے جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر اپنے دل میں لگی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتی ہے۔ اس حکومت نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے انتقام کا نشانہ بنانے کو بہتر سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج قوم مہنگائی کی چکی میں پستی چلی جا رہی ہے۔ حکومت کی ناکام پالیسیوں کے عوض لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، لوگ دو وقت کی روٹی کھانے کو ترس رہے ہیں، مہنگائی نے برا حال کیا ہوا ہے، لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی بجائے بیروزگار کیا جا رہا ہے، لوگوں کو پچاس لاکھ گھر دینے کی بجائے پہلے سے تعمیر شدہ گھروں کو غیر قانونی تعمیرات کے نام پر مسمار کیا جا رہا ہے۔ 

بظاہر یہ حکومت عوام کے چہروں پر مسکراہٹیں نہیں بلکہ پریشانیوں کو جنم دینے کے لیے لائی گئی ہے۔ گزشتہ چند روز قبل ایک سنئیر جج نے ریٹائرڈ ہونا تھا انہوں نے اپنے آخری فیصلے میں سوئی سدرن گیس کے تیس ہزار ملازمین کو ایک جھٹکے میں نکال باہر کیا، ان ملازمین میں کوئی ریٹائرمنٹ کے عین قریب تھا اور کسی نے ساری زندگی اپنے اس محکمے کے نام کرنی تھی لیکن ذرا سی ناانصافی کی وجہ سے تیس ہزار ملازمین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کی وجہ سے بہت سے ملازمین خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اس حکومت کو آٹا، چینی، گھی، ادویات کی قیمتوں میں کمی لازمی لانا ہوگی ورنہ اس حکومت کا خاتمہ پیپلزپارٹی کی نسبت قدرے زیادہ برا ہوگا اور شاید آپ کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف ایک یونین کونسل کی جماعت نہ بن پائے۔ عوام نے آپ کو تبدیلی اور سہولیات فراہم کرنے کی وجہ سے ووٹ دیا تھا لیکن آپ نے سہولیات فراہم کرنے کی بجائے پہلے سے سہولیات جو میسر تھی انکو بھی ختم کر دیا۔ اس حکومت کو اپنے کیے گئے فیصلوں پر سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ رعایا جب اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تو دنیا کی کوئی طاقت رعایا کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔

Comments are closed.