ایک اور مندر توڑ کر ہم سرخرو ہو گئے تحریر:سمیع اللہ خان

0
47

سکول کی کتابوں میں ہمیں پڑھایا گیا ہے کہ سلطان محمود غزنوی بطور مسلمان ہمارے ہیرو ہیں۔ ان کتابوں میں سلطان محمود غزنوی کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی سب سے بڑی وجہ سومنات کے بت کو توڑنا ہے۔ یہ کیوں کر ہوتا ہے کہ ہماری ہیروز کو ہیرو پیش کرنے کیلئے جنگی فتوحات، توڑ پوڑ وغیرہ جیسے افعال کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ذہن میں کبھی کبھی یہ سوال ابھرتا ہے کہ ہمارے ہیروز کی فراست، دریا دلی، علم، محبت، بھائی چارہ اور قربانیوں کو نصاب کا حصہ کیوں نہیں بنایا جاتا، کیونکہ کچے ذہنوں پہ یہ کہانیاں گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں اور یہی کچے ذہن پھر بعد میں معاشرے کے اہم ارکان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
آج صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں ایک ہندو مندر کے اندر توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کا ایک واقعہ سامنے آیا ہے۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ کچھ روز قبل ایک آٹھ سالہ بچے نے رحیم یار خان کے ایک مقامی مدرسہ کے قالین پر ’پیشاب‘ چھوڑا۔ جس کے بعد وہاں کے مقامی افراد نے اس 8 سالہ غیر مسلم بچے پر توہین مذہب یا مدرسے کی توہین کا الزام لگایا اور اس پر ایف آئی آر درج کروائی۔ بچہ جب کہ نابالغ تھا اور کم عمر بھی تھا اس وجہ سے بچے کی ضمانت ہوگئی۔
بچے کی ضمانت کے بعد جہاں اس غیر مسلم 8 سالہ بچے پر پرچہ کٹانے والوں کو کوئی اور چیز نہیں سوجھی تو انہوں نے علاقے کے دیگر افراد کو اشتعال دیلاکر رحیم یارخان کے علاقے بھونگ شریف میں واقع ہے ایک ہندو مندر جس کا نام ’گنیش مندر‘ ہے کہ اندر گھس کر توڑ پھوڑ شروع کی۔ اس دوران پولیس کی کم نفری کی وجہ سے وہ ان مشتعل افراد کو قابو نہ کر سکے اور انہیں رینجرز کی خدمات حاصل کرنا پڑی۔ رینجرز نے وقوعہ پر پہنچ کر مندر سے مشتعل افراد کو نکالا اور کچھ کو گرفتار کیا۔ کچھ اسی نوعیت کا ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک میں بھی پیش آیا تھا۔
ایسے مواقع پر اور دیگر افراد کو اشتعال دیلانے والے اشخاص کے علم میں یہ بات خوب ہوتی ہے کہ وہ یہ غلط کر رہے ہیں مگر کیونکہ وہ خود اکیلے ایسا کوئی عمل نہیں کر سکتے اس لیے دیگر افراد کو اشتعال دیلاتے ہیں، پھر انہیں مشتعل ہجوم کا سہارا لے کر یا ان کو ڈھال بنا کر اپنی مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان افراد کا مشتعل ہجوم کا ڈھال بنا کر ایسے مقاصد حاصل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو پتہ ہے کے پردے واحد اگر کوئی ایسا کام کرتا ہے تو وہ پکڑا بھی جاتا ہے اور انہیں سزا بھی ملتی ہے مگر ایک ہجوم کو پکڑنا، کنٹرول کرنا، سزاء دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ کچھ اسی طرح کے نتائج ضلع کرک میں ہونے والے ایک مندر پر حملے کے سامنے آئے ہیں، کرک میں مندر پر ہونے والے حملے کہ ملزمان کو یا تو عدالت نے رہا کیا یا پھر ہندو برادری پر دباؤ ڈال کر ان سے کیس واپس کروایا گیا۔ یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ کرک مندر واقعے میں سرکاری افسران جو معطل ہوئے تھے وہ بھی تقریبا سارے بحال ہو چکے ہیں۔
کرک یا رحیم یار خان جیسے واقعات کے بارے میں سنتا ہوں تو خیال آتا ہے کی وہ مولوی جو مدرسوں، مساجد وغیرہ میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر ان سے ’کتاب اللّٰہ‘ تربیت لیتے ہیں کہ باہر جاکر میرا یہ کارنامہ کسی کو نہیں بتاؤ گے، ان افراد کے خلاف کبھی یہ دین کے ٹھیکیدار اور یہ خود کو سچے مسلمان ثابت کرنے والے افراد کیوں نہیں نکلتے؟
یہ جو رحیم یار خان میں ’گنیش مندر‘ کو توڑ کر جو سچے اور ایماندار مسلمان سرخرو ہو چکے ہیں، ان کا اصل مسئلہ ذہن سازی ہے۔ ان کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ کعبہ میں بتوں کو توڑا گیا تھا، سومنات مندر میں محمود غزنوی نے بتوں کو توڑا تھا مگر ان کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ سومنات مندر ہو یا کعبہ ہو وہاں بتوں کو توڑنے کی کیا وجوہات تھیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تاریخ کو دو قدم آگے جا کر اور ہمارے جنگجو ہیروز کو اپنی اوقات سے بڑھ کر ’تیس مار خان‘ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ اچھے الفاظ میں صرف جوڑنے والوں کو لکھا اور یاد کیا جاتا ہے جبکہ توڑنے والوں کو منفی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

Leave a reply