2 اگست کو دو سے ڈھائی سال کی محنت کے بعد "سنگل نیشنل کریکولم” کا صوبہ پنجاب سے آغاز کر دیا گیا. ابتدائی طور پر یہ پہلی سے پانچویں کلاس کے لیے اور اس کا آغاز صوبہ پنجاب سے ہوا ہے بعد میں بتدریج ساری کلاسز اور اس کا دائرہ کار پورے ملک میں بڑھایا جائے گا. اس طرح صوبہ پنجاب پہلا صوبہ جس نے یکساں قومی نصاب کا اجرا کیا ہے، یقیناً وزیر تعلیم مراد راس صاحب، سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ مبارکباد کے مستحق ہیں.
یکساں نصاب تعلیم وزیراعظم عمران خان کا ذاتی طور پر بھی ایک خواب تھا اور پاکستان تحریک انصاف کا 2018 کے الیکشن کے منشور کا پہلا ایجنڈا تھا جو اب اپنی تکمیل کو پہنچا. یکساں قومی نصاب، تعلیم کے شعبہ میں انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے. اب پورے ملک میں ایک ہی یکساں نصاب پڑھایا جائے گا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور دینی مدارس میں بھی اسی نصاب کو پڑھایا جائے گا. اب سرکاری، پرائیویٹ اور مدارس کا فرق ختم ہو جائے گا. وزیراعظم عمران خان کی یہ ایک دیرینہ خواہش تھی کہ دینی مدارس کے طلباء بھی ڈاکٹر اور انجینئر بنیں اور باقی طلباء کی طرح عملی زندگی میں برابر کے مواقع حاصل کر سکیں جو کہ اب ممکن ہو سکے گا. پہلے سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب کو کمزور اور پرائیویٹ اداروں کے نصاب کو معیاری سمجھا جاتا تھا، اب جب سب اداروں میں ایک ہی نصاب ہو گا تو یہ فرق ختم ہو جائے گا اور یکسانیت پیدا ہو گی جو کہ بہت اچھی بات ہے.
یکساں تعلیمی نصاب کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ایلیٹ پرائیویٹ، سرکاری اور دینی مدارس کا تصور ختم ہو اور تمام طلباء ایک ہی قسم کی تعلیم حاصل کریں تا کہ عملی زندگی میں یکساں مواقع حاصل کر سکیں. پہلے سرکاری سکولوں کے طلباء اور والدین کسی حد تک احساسِ کمتری کا بھی شکار تھے کہ پرائیویٹ سکولوں میں تو کوئی بہت ہی معیاری اور ہم سے اچھی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، اب یکساں قومی نصاب سے یہ سب باتیں دم توڑ جائیں گی اور پوری قوم میں یکسانیت کی فضا قائم ہو گی. اس نصاب سے قوم پر بھی خوشگوار اثر ہو گا. جب تمام صوبوں کے طلباء ایک ہی نصاب پڑھیں گے تو بین الصوبائی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا جو کہ قومی ترقی کے لئے انتہائی ضرورت ہے.
یکساں قومی نصاب پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کی طرف پہلا قدم ہے. اس سے آگے سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں تعلیمی سہولیات اور دیگر خصوصیات کی بھی یکسانیت پر توجہ دی جانے کی ضرورت ہے تا کہ تعلیمی معیار بلند ہو اور” یکساں نظام تعلیم” کا حصول ممکن ہو. یکساں سہولیات کی فراہمی اس تصور کو ختم کرے گی کہ سرکاری سکولوں میں غریب اور مڈل کلاس فیملی کے بچے بڑھتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں ایلیٹ اور اَپر کلاس فیملی کے بچے پڑھتے ہیں. گو کہ سرکاری سکولوں میں پچھلے چند سالوں سے کافی بہتری آئی ہے لیکن ابھی بھی "کوالٹی ایجوکیشن” فراہم کرنے اور سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے میں کافی ضرورت ہے. کوالٹی ایجوکیشن اور معیار تعلیم کی بہتری کے لیے جہاں تعلیمی ماحول پیدا کرنے کے لیے سہولیات کی فراہمی ضروری ہے وہاں ماہر اور قابل اساتذہ کی بھی ضرورت ہے. اور یہ بات قابلِ ذکر ہے کے موجودہ صوبائی وزیر تعلیم پنجاب مراد راس صاحب اساتذہ کو صرف پڑھانے پر توجہ دینے کے قائل ہیں اور وہ اساتذہ سے پڑھانے کے علاوہ کی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کر رہے ہیں جو کے خوش آئند بات ہے. ایسے ہی اقدامات سے ہمارے نظام تعلیم میں بہتری آ سکتی ہے.

@ibrahimianPAK

Shares: