اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں تحریر: سحر عارف

کشمیر کا نام سنتے ہر چھوٹے بڑے کے ذہن میں جنت کا نوشہ کھیچا چلا جاتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے بچپن میں ہمیشہ بڑوں کو کہتے سنا تھا کہ اگر جنت دیکھنی ہے تو کشمیر دیکھ لو۔ کشمیر کی خوبصورتی دیکھنے کے بعد بالکل ایسا لگتا ہے جیسے جنت کا ایک ٹکڑا زمین پر اتر آیا ہو۔

اس میں پھیلا سبزہ، وہاں کے آبشار، یہاں تک کہ چرند پرند، درخت، پہاڑ نیز ہر چیز میں اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا آج بھی کشمیر ایسا ہی ہے؟

آج تو اسی جنت میں آئے روز خون کی ندیاں بہتی ہیں۔ بھارت کی گیدڑ فوج وہاں کی ماؤں بہنوں کی عصمت دری کرتی ہے۔ ہر سال ہزاروں عورتیں ان کی حوس کا نشانہ بنتی ہیں۔ مائیں اپنے لخت جگر اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھتی ہیں۔

یہاں تک بھارت کی ظالم فوج سے تو وہاں کے بچے تک محفوظ نہیں ہیں۔ اگر بچے گھروں سے باہر نکلیں تو ان کی آنکھیں پیلٹ گن سے چھلنی کر دی جاتی ہیں۔

پر افسوس صد افسوس کہ پوری دنیا خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہے۔ اس دنیا میں اگر یہی سلوک چار پانچ جانوروں کے ساتھ ہو تو یقین جانے یہ جو لوگ آج اپنے منہ سی کے اور آنکھوں میں پٹیاں باندھ کے اندھے بنے بیٹھے ہیں یہی لوگ "جانوروں کے حقوق” کھول کے بیٹھ جائیں گے۔ ان کے لیے ریلیاں بھی نکلیں گی اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

پر ان کے منہ سے کشمیر کے جائز حق میں ایک لفظ بھی نہیں پاتا۔ کیا کشمیری ان کی نظر میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں؟ کہ یہ دنیا اور اقوام متحدہ صرف تماشا دیکھے چلے جارہے ہیں۔ آخر کو کوئی بھارت کو اس ظلم و بربریت پر روکتا کیوں نہیں؟ آخر کب تک کشمیری اس قدر ظلم و بربریت سہتے رہیں گے؟

اب تو کم از کم اقوام متحدہ کو معاملے کی طرف جھنجھوڑنا ہوگا تاکہ جلد سے جلد کشمیر کے حق میں فیصلہ ہو اور ہمارے کشمیری بہن بھائی ہندوستان کے چنگل سے نکل کر آزادی کا سورج دیکھیں اور ان کی آنے والے نسلیں آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں۔

@SeharSulehri

Comments are closed.