علاماتِ قیامت تحریر: محمد اسعد لعل

قرآنِ مجید میں قیامت کی ایک علامت بتائی گئی ہے، وہ علامت یأجوج و مأجوج کا خروج ہے۔ ہمارے ہاں یأجوج و مأجوج کے بہت سے قصے مشہور ہو گئے ہیں۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی آسمانی مخلوق ہے۔ قرآن نے بہت وضاحت کے ساتھ اس کے بارے میں بتا دیا ہے کہ ” یہاں تک کہ یأجوج و مأجوج کھول دیے جائیں گے، اور وہ ہر گھاٹی سے آپ کو لپکتے ہوئے نظر آئیں گے، جیسے کوئی گروہ پِل پڑتا ہے۔” پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیامت کا جو وعدہ کر رکھا ہے اس کا ظہور ہو جائے گا۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ علاماتِ قیامت کو بیان کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آ گئی؟

انبیاء نے بتا دیا کہ قیامت آئے گی، لیکن اس کے بارے میں کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کب برپا ہو گی۔ قیامت کا وقت کسی نبی نے نہیں بتایا، اور وقت بتانا بھی نہیں چاہیے۔ اگر قیامت کا وقت معین کر دیا جائے تو پھر امتحان ختم ہو جائے گا۔ امتحان کے لیے جس طرح ضروری ہے کہ موت کا وقت نہ بتایا جائے اسی طرح قیامت کا وقت بھی نہیں بتایا گیا۔سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں ہے کہ قیامت کب برپا ہو گی۔

قیامت درحقیقت موت ہی ہے۔ ایک وہ موت ہے جو انفرادی طور پر انسانوں پر طاری ہو رہی ہے۔ ایک موت وہ ہے جو گویا پوری کی پوری انسانیت پر طاری ہو جانی ہے۔ اسی کو قیامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قیامت کے بارے میں وقت تو نہیں بتایا گیا پر خبر ضرور دی گئی ہے۔ اس کے بارے میں منادی کی گئی ہے، لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کی تیاری کرو۔

اس کی علامت بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔۔۔ اس کی بڑی سادہ سی وجہ ہے۔ قیامت کی جب منادی کی جا رہی ہے تو منادی کرنے والے کون ہیں۔۔۔اللہ کے پیغمبر۔ انبیاء کرام جس طرح کسی چیز کے علمی اور عقلی دلائل دیتے ہیں بالکل اسی طریقے سے بعض اوقات حسی دلائل بھی پیش کر دیتے ہیں۔ یعنی مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ علمی اور عقلی دلائل سے متنبہ نہیں ہو رہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر متنبہ ہو جائیں۔ بعض انبیاء کو اپنے معجزات بھی دکھانے پڑے۔ وہ معجزات ان کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت موسیٰ ؑ کے دونوں بڑے معجزے” یدبیضاء” اور "عصا” کے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ "یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے دو دلائل تھے”۔

معجزہ کیا ہے؟۔۔۔کسی شخص کے ساتھ خدا کی معیت کا ظہور ہی معجزہ ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بتایا جاتا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔ اسی طرح سے انبیاء کرام کچھ پیشین گوئیاں کرتے ہیں، وہ پیشین گوئیاں بھی اصل میں ان کی صداقت کے دلائل ہیں۔ مثال کے طور پر غلبہ روم کی پیشین گوئی کی گئی تھی، جب کِسری (خسرو) نے آپﷺ کا خط پھاڑ دیا تو آپ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا کہ اس نے اپنی سلطنت کے ٹکڑے کر دیے۔ بہت سی پیشین گوئیاں ہیں جو اللہ کے پیغمبر نے کی تھیں، اسی طریقے سے وہ بعد میں آنے والے زمانوں کی پیشین گوئیاں کرتے ہیں۔ جس وقت ان پیشین گوئیوں کا ظہور ہوتا ہے تو پیغمبر کی عدم موجودگی میں بھی پیغمبر کی طرف توجہ کا ذریعہ بن جاتی ہیں، گویا صداقت کی ایک اور دلیل پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ درحقیقت وہ دلائل ہیں جن کو قرآن مجید نے  آپ ﷺ کی موجودگی میں بیان کیا تھا کہ،”ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے” یہ نشانیاں خود آپﷺ کے سامنے بھی دکھائی گئیں اور جب آپﷺ کی نبوت قیامت تک ہے تو ظاہر ہے یہ نشانیاں قیامت تک نمودار ہوتی رہیں گی۔

اسی طرح آپﷺ نے قرب قیامت کے بارے میں بھی کچھ نشانیاں بیان کی ہیں اور قرآن مجید نے بھی اس بارے میں بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں ایک نشانی ہی بیان کی گئی ہے، اور وہ نشانی یأجوج و مأجوج کا خروج ہے۔ یأجوج و مأجوج کے بارے میں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ جو اس وقت دنیا ہے  یعنی دنیا کا ایک دور وہ ہے جو حضرت آدمؑ کے بعد شروع ہوا اور اُس کا خاتمہ حضرت نوحؑ پر ہوا۔ اس کے بعد حضرت نوحؑ کا دور شروع ہوا۔ ساڑھے نو سو سال کی غیر معمولی زندگی انہوں نے بسر کی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم پر عذاب کا فیصلہ کیا۔ وہ لوگ جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے ان کے لیے حکم دیا گیا کہ ایک کشتی میں سوار کر لیا جائے۔ تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نجات پائی۔ ان میں سے ان کے تین بیٹے ہیں (حام، سام اور یافث) جن کی اولادیں پروان چڑھیں۔ 

آپ اگر دیکھیں تو پہلے مرحلے میں حام کی اولاد ہے جو دنیا میں اقتدار تک پہنچی، یہ زیادہ تر افریقہ میں آباد رہے۔ ان کی بڑی بڑی سلطنتیں وہیں وجود میں آئیں۔اس کے بعد سام کی اولاد کو اقتدار حاصل ہونا شروع ہوا، یہ جو قدیم عرب کے بادشاہ تھے یہ دراصل سامی بادشاہ تھے۔ تیسرے بیٹے یافث کی اولاد وسطی ایشیا میں جا کر آباد ہوئی۔ یافث کے پھر دس ،بارہ بیٹوں کا نام آتا ہے۔ یافث کی اولاد میں سے یأجوج و مأجوج کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ یہ یأجوج و مأجوج کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہے بلکہ حضرت نوحؑ کے پوتے ہیں۔

یأجوج و مأجوج نے وسطی ایشیا سے اپنی زندگی کی ابتدا کی اور پھر یہیں سے ہجرت کر کے امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا پہنچے۔ جب دنیا ختم ہونے کے قریب آئے گی تو یہ دنیا کے پھاٹکوں پر قبضہ کر چکے ہوں گے۔ آج اگر آپ دنیا کے نقشے کو اُٹھا کر دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک دائرے میں یأجوج و مأجوج کا اقتدار ہے، اور درمیان میں حام اور سام  کی نسلیں آباد ہیں۔ چنانچہ اس وقت یأجوج و مأجوج اقتدار میں ہیں اور اب آہستہ آہستہ یہ وقت آئے گا کہ جب یہ ہر گھاٹی سے لپکیں گے اور یہاں تک کہ سمندروں کا سارا پانی پی جائیں گے، اور اس کے بعد قیامت برپا ہو گی۔

@iamAsadLal

twitter.com/iamAsadLal

Comments are closed.