فوک گلوکار عالم لوہار کی کل 43 ویں برسی منائی جائیگی، صوفی کلام کو منفرد انداز میں گانے اور شیر پنجاب کہلائے جانے والے عالم لوہار کی فیملی میں ان سے پہلے کوئی نہیں گاتا بجاتا تھا. عالم لوہار نے کم عمری میں ہی پنجابی کہانیاں اور شاعری پڑھنا شروع کر دیں تھیں اس کے بعد صوفیا کے کلام کو گانے لگے، ان کے کلام کو سننے کےلئے ان کے گائوں میں دود دور سے لوگ آنے لگے.عالم لوہار نے گائیکی میں چمٹا بجانے کے انداز کو متعارف کروایا ان سے پہلے کسی گلوکار نے چمٹا نہیں بجایا تھا.سریلی آواز کے مالک اس فوک گلوکار نے کبھی بھی کسی استاد کی شاگردی اختیار نہیں کی تھی ان کی آواز انہیںقدرت کا عطا کردہ انمول تحفہ تھی. عالم لوہار کی شہرت جب ان کے گائوں سے نکل کر ملک بھر میں پہنچی تو پاکستان فلم انڈسٹری نے بھی ان کو
بلایا.1948 میں انہوں نے اپنا پہلا فلمی گیت گایایہ گیت میاں محمد بخش کی شاعری پر مشتمل تھا. اس کے بعد انہوں نے جگنی گیت گایا اس گیت کے بعد تو شہرت جیسے ان کے گھر کی باندھی بن گئی انہیں وہ شہرت ملی جو آج تک کسی اور فوک گلوکار کے حصے میں نہیں آئی، جگنی ان کی اپنی کمپوزیشن تھی.قصہ یوسف ہو یا زلیخا عالم لوہار نے جس انداز سے سنایا لوگ ان کے دیوانے بن گئے.جگنی کو عالم لوہار کے بعد کئی گلوکاروں نے گانے کی کوشش کی لیکن جو انداز عالم لوہار کا رہا وہ کسی اور کا نہ تھا.انہوں نے برطانیہ امریکہ کینڈا میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا.عالم لوہار نے لوک داستانیں سنانے کا جو رواج شروع کیا وہ ان سے پہلے کوئی نہ متعارف کروا سکا.عالم لوہار 3 جولائی 1979 میں ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے.