آج کے اس مصروف دور میں ہر انسان مختلف قسم کی پریشاینیوں اور بے خینیوں سے دو چار ہے۔ وہ زندگی کی اس دوڑ میں ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اتنے ساتھ لوگوں کو خوش رکھ سکے اور خود بھی ذہنی سکوں حاصل کرے۔۔۔۔۔۔
لیکن افسوس انسان اس کوشش میں ناکام ہو چکا ہے۔ وہ جانتا ہی نہیں ہے کہ سکون کیا ہے اور وہ اسے کیسے حاصل کرے۔
اس بے سکونی اور بے چینی کی وجہ سے وہ آئے دن مشکلات میں گھرتا ہی چلا جاتا ہے۔ اتنوں سے دوری اختیار کرلیتا ہے، اپنے دوستوں سے علیحدہ ہو جاتا ہے حتی کہ اپنے عستے بستے گھر کو اجاڑ بیٹھتا ہے۔۔ اور آہستہ آہستہ وہ خود کشی کی طرف جا پہنچتا ہے۔ اس کی زندگی کی کمائی اس کو ذرا برابر بھی سکون نہیں دے پاتے۔۔۔۔
امام غزالی علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ : "بندے کی اپنے رب سے دوری بندے کو بندے سے دور کر دیتی ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سکون کس چیز میں ہے؟؟ جب اس دنیا کی آسائشیں سکون نہ دے سکی ۔۔ اس دنا کی کوئی رشتہ سکون نہ دے سکا تو آخر وہ کیا ہے جس سے سکون حاصل ہو۔۔۔۔ وہ کیا ہے جو زندگی میں مشکل سے مشکل حالات میں ڈگمگانے نہ دے؟؟
وہ صرف اللہ کی طرف رجوع ہے۔۔۔۔ وہ اللہ سے ربط قائم کرنا ہے۔۔۔۔ وہ اللہ کی کتاب احکامات کو مضبوطی سے تھام لینا ہے۔۔
پھر چاہے زندگی میں کوئی بھی حالات ہوں، زندگی کی ایسی مشکلات ہوں کہ جینا بھی دو بھر ہو تو جینا مشکل نہیں لگتا ۔۔۔ کیوں اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ وہ اپنے نیک بندے کےلیے ہر مشکل راستہ آسان کرتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔
اللہ سے تعلق استوار کرنا کیا ہے؟؟
اللہ سے تعلق استوار کرنا یہ ہے کہ اس کے احکام ماننا، اس کا ہر ہر حکم بجا لانا، اس کی عبادت میں خود کو مصروف کر لینا، اپنے روز مرہ کے کاموں میں اللہ کی احکام کے خلاف نہ جانا، اور کیسی بھی پریشانی ہو، کیسی بھی مشکل ہو اس کو اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے برداشت کرنا۔۔۔۔۔
اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِؕ-اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(28)
"جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں ، سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں "۔
یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کرکے بے قرار دلوں کو قرار اور اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ یونہی اللّٰہ تعالیٰ کی یاد محبت ِ الٰہی اور قرب ِ الٰہی کا عظیم ذریعہ ہے اور یہ چیزیں بھی دلوں کے قرار کا سبب ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ بھی کہا جائے تو یقینا درست ہوگا کہ ذکرِ الٰہی کی طبعی تاثیر بھی دلوں کا قرار ہے ، اسی لئے پریشان حال آدمی جب پریشانی میں اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تواس کے دل کو قرار آنا شروع ہوجاتا ہے ،یونہی قرآن بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس کے دلائل دلوں سے شکوک و شبہات دور کرکے چین دیتے ہیں ، یونہی دعا بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس سے بھی حاجتمندوں کو سکون ملتا ہے اور اسمائے الٰہی اور عظمتِ الٰہی کا تذکرہ بھی ذِکْرُ اللّٰہ ہے اور اس سے بھی محبانِ خدا کے دلوں کو چین ملتا ہے۔
اللہ رب العالمین نے قرآن کریم کے اندر سورہ زخرف میں فرمایا :
"وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَیِّضْ لَهُ شَیْطَانًا فَھُوَ لَهُ قَرِینٌ.
” اور جو کوئی رحمان کے ذکر سے منہ موڑتا ہے، اس پر ہم ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں، جو اس کا ساتھی بنا رہتا ہے۔ ( سورہ زخرف : 36)
ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کریں، اس کے احکامات پر عمل کریں، اس کے ذکر و اذکار سے اپنی زبان تر رکھیں، بندوں کے حقوق کی مکمل رعایت کریں، مشکل و پریشانی کے لمحات میں بھی خوش و خرم رہنا سیکھیں، غم و الم کی چادر اوڑھ کر بیماریوں کو دعوت نہ دیں، ورنہ تندرست و توانا ہونے کے باوجود بھی ہسپتالوں کے چکر کاٹیں گے، فراغت و خوش حالی کے باوجود بھی قلبی راحت و سکون سے محروم ہوکر ذہنی و نفسیاتی اذیتیں ہمارا جینا دوبھر کر دیں گی۔ اللہ ہمیں سکون کی دولت سے مالا مال کرے۔۔آمین!
Twitter ID: @T7__G