لاہور:سابقہ امتوں پرعذاب چند گناہوں کی وجہ سے آئے ،ہمارے اندرتوطرح طرح کے گناہ ہیں ، ہمارا کیا بنے گا،علامہ حقانی اورعلامہ موسوی کی نصیحت آموزگفتگو،علامہ عبدالشکورحقانی نے تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی کھلی دلیل آگئی ہے۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، لہٰذا اِسے چھوڑو کہ خدا کی زمین میں چَرتی پھرے۔ اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آلے گا۔
یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قومِ عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو۔ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجائو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔‘‘
اُس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کمزور طبقے کے اُن لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے، کہا ’’کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے ربّ کا پیغمبر ہے؟‘‘ اُن بڑائی کے مدعیوں نے کہا ’’جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔‘‘
پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمّرد کے ساتھ اپنے ربّ کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے، اور صالح سے کہہ دیا کہ ’’لے آ وہ عذاب جس کی تُو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تُو واقعی پیغمبروں میں سے ہے۔‘‘ آخرِکار ایک دہلا دینے والی آفت نے اُنہیں آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ اور صالح یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ’’اے میری قوم، میں نے اپنے ربّ کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں۔‘‘ حضرت نوحؑ کے بعد ایک عرصے تک ان کی اولاد اور ان پر ایمان لانے والوں کی اولادیں ہدایت پر قائم رہیں…
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قوم عاد کو فضیلت بخشی لیکن وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آگئے اور ہلاک ہوئے۔ ان کے بعد اللہ تعالی ٰ نے قوم ثمود کو فضیلت عطا کی۔ عاد اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے، تو ثمود پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر عالی شان عمارتیں بناتے تھے۔ اسی لیے سورہ فجر میں عاد کو ’’ستونوں والے‘‘ کا لقب دیا گیا ہے اور ثمود کے بارے میں کہا کہ ’’وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں، وہ اپنے میدانی علاقوں میں بڑے بڑے محل تعمیر کرتے تھے‘۔ اور یہ سب کچھ اپنی بڑائی، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالاتِ فن کی نمائش کے لیے تھا، کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی۔
ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں یہی ہوتا ہے کہ غریبوں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملتی اور مال دار اور طاقت ور لوگ رہنے کے لیے ضرورت سے زیادہ محل بناتے ہیں اور اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ اب تک پتھروں کی وہ عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر یہاں سے گزرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ آثارِ عبرت دکھائے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب ِ بصیرت انسان کو حاصل کرنا چاہیے۔ ایک جگہ آپؐ نے ایک کنویں کی نشان دہی کرکے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی… اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا، باقی کنووں کا پانی نہ پینا۔ ایک پہاڑی درے کو دکھا کر آپؐ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کررہے تھے اُن کو آپؐ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اُس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، یہاں سے جلدی گزر جاؤ، یہ سیرگاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے۔
انسانی تاریخ اور قومِ عاد و ثمود اور دوسری اقوام کے آثارِ قدیم گواہ ہیں کہ جس قوم نے بھی اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخرکار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہوگا، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر دنیا کو اس کے وجود سے پاک کردیا۔ یہ لوگ اللہ کو مانتے تھے لیکن اللہ کی اطاعت اور بندگی کے لیے تیار نہ تھے۔ ان میں شرک و بت پرستی عام تھی۔ قوم کے بدترین لوگ اس کے لیڈر بنے ہوئے تھے۔
شہر کو 9 جتھے داروں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کے درمیان ایک خاموش معاہدہ تھا کہ اپنے علاقے کے کمزوروں کو ظلم کے شکنجے میں جکڑے رکھیں۔ یہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مست تھے۔ حضرت صالح نے ان سے کہا کہ تم اپنے ان سرداروں اور رہنماؤں کی اطاعت چھوڑ دو جن کی قیادت میں تمہارا یہ ظالمانہ نظام زندگی چل رہا ہے۔ یہ کرپٹ لوگ ہیں، بداخلاقی کی ساری حدیں پار کرچکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی،
قرآنِ مجید میں قوم لوط کاذکر سترہ (17) مرتبہ آیا ہے،قومِ لوط کا مسکن شہر سدوم اور عمورہ تھا جو بحر مردار کے ساحل پر واقع تھا، اورقریش مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ، یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اورضُغر تھے، ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات (یعنی الٹی ہوئی بستیاں) کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔
جبحضرت لوط علیہ السلام اردن میں بحیرہ لوط کے پاس جہاں سدوم اور عامورہ کی بستیاں تھیں وہاں آکر رہائش پذیر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اہلِ سدوم کی ہدایت کے لیے نبی مبعوث فرمایا، یہاں کے باشندے فواحش اور بہت سے گناہوں میں مبتلا تھے، دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو ان میں موجود نہ ہو ، یہ دنیا کی سرکش، متمرد اور بداخلاق قوم تھی،
ان سب برائیوں کے ساتھ ساتھ یہ قوم ایک خبیث عمل کی موجد بھی تھی، وہ یہ کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لیے عورتوں کے بجائے لڑکوں سے اختلاط رکھتے تھے، دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اب تک کوئی رواج نہ تھا ، یہی وہ بدبخت قوم تھی جس نے اس ناپاک عمل کو شروع کیا تھا، اور اس سے بھی زیادہ بے حیائی یہ تھی کہ وہ اپنی اس بدکرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے، بلکہ کھلم کھلا فخر کے ساتھ اس کو کرتے رہتے تھے۔
ان حالات میں حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کو ان کی بے حیائیوں اور برائیوں پر ملامت کی اور شرافت وطہارت کی زندگی کی رغبت دلائی، اور ہر ممکن طریقے سے نرمی اور پیار سے انہیں سمجھایا اور نصیحتیں کیں ، اور پچھلی قوموں کی بداعمالیوں کے نتائج اور ان پر آئے ہوئے عذابات بتاکر عبرت دلائی، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ الٹا طنز کرتے ہوئے یہ کہنے لگے: ” یہ بڑے پاک باز لوگ ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال دو” اور بارہا سمجھانے کے بعد یہ کہنے لگے: "ہم تو نہیں مانتے ،
اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ”، ادھر یہ ہورہا تھا اور دوسری جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ کے فرشتے انسانی شکل میں آئے ، ابراہیم علیہ السلام نے انہیں مہمان سمجھ کر ان کی تواضع کرنی چاہی لیکن انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا، یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہے جو حسبِ دستور کھانے سے انکار کررہا ہے، اور پریشان سے ہوگئے، تو مہمانوں نے کہا: آپ گھبرائیں نہیں، ہم اللہ کے فرشتے ہیں، آپ کے لیے بیٹے کی بشارت لائے ہیں اور قومِ لوط کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں،
ابراہیم ؑ نے فرمایا: تم ایسی قوم کو ہلاک کرنے جارہے ہو جس میں لوط ؑ جیسا خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہمیں معلوم ہے، لیکن اللہ کا یہی فیصلہ ہے کہ قومِ لوط اپنی بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک ہوگی، اور لوط (علیہ السلام) اور ان کا خاندان اس عذاب سے محفوط رہے گا، سوائے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے وہ قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں میں شرکت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگی۔
فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے روانہ ہوکر سدوم پہنچے ، اور لوط علیہ السلام کے یہاں مہمان ہوئے، اور یہاں یہ فرشتے خوب صورت اور نوجوان لڑکوں کی شکل میں تھے، لوط علیہ السلام نے ان کو دیکھا تو بہت پریشان ہوئے کہ اب نہ جانے قوم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی، ابھی وہ اسی پریشانی میں تھے کہ قوم کو خبر ہوگئی اور وہ لوط علیہ السلام کے مکان پر چڑھ گئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ ان کو ہمارے حوالہ کردو، لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانے، تو انہوں سخت پریشانی میں کہا: "کاش میں کسی مضبوط سہارے کی حمایت حاصل کرسکتا” !!
فرشتوں نے ان کو پریشان دیکھ کر کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ، ہم انسان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، اور ان کے عذاب کے لیے نازل ہوئے ہیں ، آپ راتوں رات اپنے خاندان سمیت یہاں سے نکل جائیں ، تو فرشتوں کے پیغام کے بعد لوط علیہ السلام اپنے خاندان سمیت بستی سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکارکردیا اور یہیں رہ گئی، جب رات کا آخری پہر ہوا تو عذاب شروع ہوگیا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک چینخ نے ان کو تہہ وبالاکردیا، پھر ان کی آبادی کو اوپر اٹھا کر زمین کی طرف الٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام ونشان مٹادیا، اور گزشتہ قوموں کی طرح یہ بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے انجام کو پہنچے۔
https://www.youtube.com/watch?v=k7OWmclpSnA
علامہ موسوی نے حضرت شعیب علیہ السّلام سے متلعق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت’’ مدین‘‘ میں ہوئی۔ مدین ایک قبیلے کا نام ہے اور اُسی قبیلے کے سبب بستی کا یہ نام مشہور ہوگیا۔ دراصل، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ایک بیٹے کا نام مدین تھا اور اُن کی نسل کو’’ اہلِ مدین‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی تیسری بیوی، قطورا کے بطن سے تھے اور اسی لیے یہ خاندان ’’بنی قطورا‘‘ کہلاتا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے، مدین اپنے اہل وعیّال کے ساتھ اپنے سوتیلے بھائی، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے قریب ہی حجاز میں آباد ہوگئے تھے۔ یہ جگہ بحیرۂ قلزم کے مشرقی کنارے اور عرب کے شمال مغرب میں شام سے متصل حجاز کے آخری حصّے میں واقع تھی۔ حجاز سے شام، فلسطین اور مِصر کے سفر کے دَوران قبیلہ مدین کی اِس بستی کے کھنڈرات دِکھائی دیتے ہیں، جب کہ مدین نام کا ایک شہر آج بھی شرقی اُردن کی بندرگاہ، معان کے قریب موجود ہے۔
دنیا میں جتنے بھی انبیائے کرامؑ مبعوث فرمائے گئے، اُن کی دعوت کا مشترکہ مقصد حقوق کی بہ احسن طریقے سے ادائی کی تعلیم عام کرنا تھا۔ حقوق دو قسم کے ہیں، ایک حقوق اللہ یعنی اللہ کی عبادت اور اُس کی ہدایات پر عمل اور دوسرا حقوق العباد، جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ دنیا میں قومِ لوطؑ کے بعد قومِ شعیبؑ وہ قوم تھی، جو دونوں حقوق پامال کررہی تھی۔ ایک طرف وہ اللہ اور اُس کے رسولؑ پر ایمان نہ لاکر حقوق اللہ کی خلاف ورزی کر رہی تھی، تو دوسری طرف، ناپ تول میں کمی،لُوٹ مار، رہزنی، ڈرانا دھمکانا، زمین پر فساد جیسے گھناؤنے جرائم کی مرتکب ہوکر حقوق العباد کی دھجیاں بکھیر رہی تھی۔قرآنِ کریم میں قومِ شعیبؑ کے تین طرح کے عیوب کا تذکرہ ملتا ہے۔
1۔ وہ لوگ کفروشرک میں مبتلا تھے اور درختوں کی پوجا کرتے تھے۔
2۔ بیوپار میں بے ایمانی اور ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔
3۔راستوں میں بیٹھ کر لُوٹ مار کرتے، لوگوں کے اموال چھینتے اور غنڈا ٹیکس وصول کرتے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں غنڈا ٹیکس کی بنیاد قومِ شعیبؑ ہی نے رکھی، تو بے جا نہ ہوگا۔
قوم شعیبؑ تین طرح کےعیوب میں مبتلا تھی اور اللہ تعالیٰ نے اُسے تین طرح کے عذاب سے نیست و نابود کیا۔ قرآنِ کریم میں تین طرح کے عذاب کا تذکرہ ہے، جو قومِ شعیبؑ پر آیا۔(1) زمینی بھونچال یا زلزلہ( 2) چنگھاڑ( 3) آگ کے بادل۔ سورۂ الاعراف میں ہے کہ’’ اُن کو بھونچال نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ سورۂ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اُنہوں نے ان (شعیبؑ) کو جھوٹا سمجھا، سو اُن کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ سورۂ ھود میں چنگھاڑ کے ذریعے عذاب کا ذکر آیا، کیوں کہ یہ لوگ اپنے نبی کا مذاق اور تمسخر اڑایا کرتے، پھبتیاں کستے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کے ذریعے اس قوم پر ایک چیخ لگوائی، جس سے اُن کے کلیجے پھٹ گئے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور جو ظالم تھے، اُن کو چنگھاڑ نے آ دبوچا، تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (سورۂ ھود 94)سورۂ الشعراء میں بادل کے عذاب کا تذکرہ ہے، جو اُن کی اپنی خواہش کا نتیجہ تھا۔ اُنہوں نےکہا تھا کہ’’ تم اُن میں سے ہو، جن پر جادو کردیا جاتا ہے اور تم تو صرف ہماری طرح کے آدمی ہو اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔ اگر تم سچّے ہو، تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گرائو۔‘‘(سورۃ الشعراء 187-185) چوں کہ’’ اُنہوں نے جھٹلایا تھا، تو اُنہیں بادل والے دن کےعذاب نے پکڑ لیا۔ وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اُن پر پہلے تو سخت گرمی مسلّط فرمائی اور سات دن مسلسل اُن پر ہَوا بند رکھی، جس کی وجہ سے پانی اور سایہ بھی اُن کی گرمی نہ کم کر سکا اور نہ ہی درختوں کے جُھنڈ کام آئے، چناں چہ اس مصیبت سے گھبرا کر بستی سے جنگل کی طرف بھاگے، وہاں اُن پر بادلوں نے سایہ کرلیا۔ سب گرمی اور دھوپ کی شدّت سے بچنے کے لیے اُس سائے تلے جمع ہوگئے اور سُکون کا سانس لیا۔ لیکن پھر چند لمحوں بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہوگئے، زمین زلزلے سے لرزنے لگی اور پھر آسمان سے ایک سخت چنگھاڑ آئی، تو اُس نے اُن کی روحوں کو نکال دیا (کلیجے پھٹ گئے) اور جسموں کو تباہ و برباد کردیا اور سب اوندھے گرے پڑے رہ گئے۔