لاپور:سید نا حضرت حسینؓ کی شہادت ،صبراور قربانی کا درس دیتی ہے،علامہ حقانی،علامہ موسوی کی علمی گفتگو.اطلاعات کے مطابق علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواسۂ رسولؐ،جگر گوشۂ بتول ؓ،نوجوانانِ جنت کے سردار، کربلا کے قافلہ سالار، حق و صداقت کے علم بردار، سبطِ رسولؐ سید نا حضرت حسینؓ، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے چہیتے نواسے، شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراءؓکے عظیم فرزنداور حضرت حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ابو عبداللہ آپؓ کی کنیت، سید، طیب، مبارک، سبط النبیؐ، ریحانۃ النبیؐ اور نواسۂ رسولؐ القابات ہیں۔

سیدنا حضرت حسینؓ شعبان 4ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی خبر سن کر سیدِ عرب و عجم، سرکار دو عالمﷺ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے اور نومولود حضرت حسینؓ کے کانوں میں اذان دی اور آپؓ کے منہ میں اپنا مبارک لعاب دہن داخل فرمایا، آپؓ کے لئے دعا فرمائی اور آپؓ کا نام نامی حسینؓ رکھا۔

سیدنا حسینؓ نے تقریباً سات سال تک سرور کونینﷺ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔ نبی کریمﷺ حضرات حسنینؓ سے غیرمعمولی محبت و شفقت فرماتے اور تمام صحابہ کرامؓ بھی رسالت مآبﷺ کی اتباع میں حسنین کریمینؓ سے خصوصی شفقت و محبت رکھتے اور اکرام فرماتے۔نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد خلیفۃ الرسولؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ، امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدناحضرت عثمان غنیؓ بھی حضرات حسنینؓ کو نہایت عزیز اور مقدم رکھتے اور انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے۔

امام عالی مقام سیدنا حسینؓ بے حد فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپؓ کی خصوصیات حسنہ تھیں۔ آپؓ کو نماز سے بے حد شغف تھا۔ اکثر روزے سے رہتے۔ حج و عمرہ کی ادائیگی کا ذوق اتنا کہ متعدد حج پاپیادہ ادا فرمائے۔

حضرت امام حسینؓ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ آپؓ نہ صرف صورت بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کے شبیہ تھے۔ آپؓ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ نبویؐ میں پرورش پائی، اسی لئے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ علم کا باب تو آپؓ کے گھر میں کھلتا تھا اور تقویٰ کی سیدنا حسینؓ کو گھٹی ملی تھی، اسی لئے فطری طور پر آپؓ اپنے دور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔

تمام ارباب سیرت نے حضرت امام حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپؓ بڑے درجے کے حامل تھے۔ حضرت علیؓ قضاءو افتاء میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ سیدنا حسینؓ نے بھی حصول علم کے بعد مسند تدریس کو زینت بخشی اور مسند افتاء پر فائز ہوئے۔ اکابر مدینہ مشکل مسائل میں آپؓ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔

سبط رسولؐ سیدنا حضرت حسینؓ دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ آپؓ کےتبحر علمی، علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آپؓ کے خطابات سے کیا جاسکتا ہے۔ جن میں سے کچھ آج بھی کتب سیرت میں موجود ہیں۔

جگرِ گوشۂ بتولؓ، سیدنا حضرت امام حسینؓ فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدد احادیث مبارکہ آپؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہ رسالتﷺ میں حضرات حسنینؓ کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر نبی مہربانﷺ آپ دونوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپؓ کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا:

٭… ’’حسن ؓاور حسینؓ، یہ میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور جو ان سے محبت کرے تو بھی ان سے محبت فرما‘‘۔ (ترمذی۔ مشکوٰۃ)

٭… سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا: ’’حسنؓ و حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں‘‘۔ (ترمذی)

٭… ایک موقع پر خاتم النبیینﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حسنؓ و حسینؓ سے محبت کی،اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔ (البدایۃ و النہایۃ ج8 ص208)

٭…اسی طرح آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘۔ (ترمذی)

سن60ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تو لادینیت، ناانصافی، عہد شکنی، ظلم و جبر اور فسق و فجور کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روح کے منافی فسق و فجور سے آراستہ فاسقانہ ثقافت یزید کے دور اور اس کے دربار میں پروان چڑھنے لگی۔ تاریخ کی بے شمار کتب اس کی گواہ ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملوکیت کی بنیادیں رکھی جانے لگیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لازم ہوگیا، لہٰذا اس نازک وقت اور سنگین دور میں یہ عظیم سعادت سیدنا حسینؓ کا مقدر ٹھہری۔ آپؓ ایمانی جذبے سے سرشارہوکر کھڑے ہوئے اور یزید کے باطل اقدامات کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوئے اور برائی کے سدِّباب کے لئے آپؓ نے ہر ممکن کوشش کی۔ امام حسینؓ نے تمام خطرات کے باوجود عزیمت کی راہ اختیار کی، کیونکہ ایک طرف ذاتی خطرات تھے اور دوسری طرف ناناﷺ کا دین اور امت محمدیؐ کا مفاد تھا، لہٰذا آپؓ نے نہ صرف اپنی ذات اقدس بلکہ اپنے پورے گلشن کو اسلام کی سربلندی اور امت کے وسیع تر مفاد پر قربان کردیا۔

اور یوں 10؍محرم الحرام یوم عاشور بروز جمعہ 61ہجری میں وہ دل دوز،دل خراش سانحہ پیش آیا ،جس میں امام مظلوم سیدنا حضرت امام حسینؓ اپنے فرزندوں، بھتیجوں اور اپنے دیگر عزیزوں اور جاںنثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقام کربلا میں یزیدی لشکر سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے اور باطل کو وہ شکست فاش دی کہ رہتی دنیا تک جس کی نظیر نہیں مل سکتی ، حق و صداقت کی وہ لازوال شمع روشن کی جو کفر و باطل کی گھٹاٹوپ ظلمتوں میں انسانیت کے لئے راہِ نجات اور چراغ راہِ منزل ہے۔؎

ساری کائنات کا خالق ومالک اﷲتعالیٰ ہی ہے ۔ اور وہی سب سے اعلیٰ و ارفع ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی ذات مقدسہ قابل تعظیم ہے تو وہ حضور نبی اکرمﷺ ہیں ، آپ ﷺ کے بعد اہل بیت اطہار یعنی آپ کے گھر والے عظمت والے ہیں ان سب کی تعظیم وتکریم ہر ایک کے لئے بے انتہاء ضروری ہے ۔ کیونکہ سورئہ احزاب میں فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ ’’ سوائے اس کے کچھ نہیں اﷲ چاہتاہے کہ آپ کے گھر والوں کو ہر طرح کی گندگی اور نجاست سے پاک و صاف کیا جائے ‘‘۔ اس اٰیت سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کے گھر والے انتہائی عظمت والے اور شرف والے ہیں ۔ ان کی جتنی تعظیم و توقیر کی جائے اتنا ہی ہمیں بہتر طور پر آگے بڑھنے کا بھر پور موقع ملیگا۔چنانچہ اہل بیت اطہار {۱۔ محمد عربی ﷺ ۲۔ حضرت علی ۳۔ حضرت فاطمہ ۴۔ حضرت حسن ۵۔ حضرت حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین } جنکو ہم پنجتن کہتے ہیں ۔ ان تمام سے ہمیں والہانہ محبت رکھنی چاہئے ۔ آج ان اہل بیت اطہار میں سے ایک ایسی ہی عظیم شخصیت کے متعلق کچھ تحریر کیا جائیگا جو نہ صرف اپنے آپ میں ممتاز تھی بلکہ وہ اﷲ تعالیٰ اور آقائے دوجہاں ﷺ کے نزدیک بھی محبوب تھی ۔

 

ولادت : نصف ماہ ِرمضان المبارک ۳ ہجری ، آپ صحابی اور پیارے رسول ﷺ کے نواسے ہیں۔
کنیت : ابو محمد۔
خطاب : نوجوانانِ جنت کے سردار، ریحانۃ الرسول ،مصلحِ قوم، شبیہ ِرسول۔
جائے ولادت : مدینہ منورہ ۔ جب آقائے دوجہاں ﷺ کو ولادت کی اطلاع ملی تو حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لائے اور اس بچہ کا نام حسن رکھااور عقیقہ ساتویں دن کیا گیا ہے ۔

٭ حضـرت امام حسن رضی اﷲتعالیٰ عنہ سیرت اور صورت میں حضورنبی اکرم ﷺ کے مشابہ تھے ۔ جب بھی صحابہ کو حضور ﷺ کے وصال کے بعد حضور کو دیکھنا ہوتو وہ تمام امام حسن رضی اﷲتعالیٰ کو عنہ کو دیکھ لیتے تھے ۔ جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں حضرت امام حسن سینہ سے سر تک رسول اﷲ ﷺ کی کامل شبیہ تھے اور حضرت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ سینے سے نیچے تک حضور اکرم ﷺ کی کامل شبیہ تھے ۔ (ترمذی شریف ) ۔

ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت امام حسن رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو کندھے پر لے کر نکلے ، یہ دیکھ کر ایک شخص نے کہا کہ کیا ہی اچھی سواری ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا سوار بھی کیا ہی اچھا ہے ۔ آپ بہت زیادہ سخی تھے ایک سے زائد بار اپنا پورا مال راہِ ﷲمیںخرچ کیے ۔ اور کئی دفعہ نصف مال خرچ کیے ہیں ۔

٭ طبرانی میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوئے اس حالت میں کہ آپ ﷺ چادر بچھائے ہوئے تھے۔ پس اس چادرپر حضور نبی اکرم ﷺ بنفس نفیس اور حضرت علی، حـضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین بھی بیٹھ گئے پھر آپ ﷺ اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کراس میں گرہ لگادی ۔ پھر فرمایا : ائے اﷲ! توبھی ان سے راضی ہوجا ، جس طر ح میں ان سے راضی ہوں ۔

٭ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اﷲتعالیٰ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین سے فرمایا : تم جس سے لڑوگے میں بھی اس سے لڑوںگا ، جس سے تم صلح کروگے میں بھی اس سے صلح کروںگا۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) ۔ حضرت امام حسن رضی اﷲتعالیٰ عنہ مصلح قوم تھے یعنی آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لوگوں میں صلح کراتے تھے ۔ یقیناً آپ کی شخصیت انتہائی اہم تھی ۔ اور ایسی شخصیت کی نگرانی کوئی اور نہیں بلکہ بحکم خداوندی فرشتے کرتے تھے ۔ اور آقائے دوجہاں ﷺ بھی بے انتہاء آپ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے محبت کرتے تھے ۔ اور آپ کو حضور اکرم ﷺ اپنے کندھے پر اٹھاکر دعافرماتے تھے ، ائے اﷲ میںان سے محبت کرتاہوں توبھی ان سے محبت کر۔آپ کی خاصیت یہ تھی شہادت حضرت علی رضی اﷲعنہ کے بعد تقریباً چالیس ہزار (۰۰۰،۴۰) لوگ آپ کے دست ِاقدس پر بیعت کئے ہیں ۔

حضرت امام حسن علیہ السلام امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے بطن مبارک سے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارہا فرمایا تھا کہ حسن و حسین میرے بیٹے ہیں اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام اپنے تمام بیٹوں سے فرمایا کرتے تھے: تم میرے بیٹے ہو اور حسن و حسین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ہیں۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت ۳ھ کو مدینہ میں ہوئی ،آپ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت سے تین یا چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔

فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام انسانی کمالات میں اپنے والد گرامی کا کامل نمونہ اور اپنے نانا کی نشانی تھے۔ جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم با حیات رہے اپ اور آپ کے بھائی امام حسین علیہ السلام ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس رہتے تھے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے امام ہیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔

حضرت رسول خدا(ص) فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ” ۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

فرزند رسول امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے تمام لوگ بھی آپ سے بے انتھا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار اپنی تمام دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردی تھی۔ تین بار اپنی جائداد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لئے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نہایت شجاع اور بہادر بھی تھے۔ اپنے بابا امام علی علیہ السلام کے ساتھ جب آپ جنگ کرنے جاتے تھے تو فوج میں آگے آگے رہتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے صرف چہ مھینے حکومت کی تھی۔

Shares: