قیامت کب آئے گی اس کا علم اللہ کو ہے،نمازپڑھنا،زکوٰۃ دینا،نیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنا مومن کا خاصا ہے،علامہ حقانی ،علامہ موسوی کی علمی گفتگو

لاہور :قیامت کب آئے گی اس کا علم اللہ کو ہے،نمازپڑھنا،زکوٰۃ دینا اورنیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنا مومن کا خاصا ہے ،علامہ حقانی ،علامہ موسوی کی علمی گفتگو،اطلاعات کے مطابق جیسے جیسے رمضان المبارک کا مہینہ گزررہا ہے قرآن کے پاروں کی تفسیر اورخلاصے کا سلسلہ بھی آگے بڑھ رہا ہے ، اس سلسلے میں معروف عالم دین علامہ عبدالشکورحقانی نے اس پارے کے اہم موضوعات کچھ اس طرح بیان کئے ہیں

علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سترھویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے حساب کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔ اللہ نے دین سمجھنے کا طریقہ بھی بتایا کہ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے پوچھ لینا چاہیے۔ یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمان کو کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا، اگر اس نے کھیل ہی کھیلنا ہوتا تو وہ کسی اور طریقے سے بھی یہ کام کر سکتا تھا۔ اللہ نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ہر چیز کو پانی سے زندگی دی ہے۔ اللہ انسانوں کو اچھے اور برے حالات سے آزماتا ہے۔ حالات اچھے ہوں تو انسان کو شکر کرنا چاہیے اور حالات برے ہوں تو انسان کو صبر کرنا چاہیے۔

علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سورت الانبیا میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کو تولنے کے لیے میزانِ عدل قائم کریں گے۔ اس میزان میں ظلم والی کوئی بات نہیں ہوگی اور جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہوگی۔ حضرت ابراہیم کی جوانی کا وہ واقعہ بھی ذکر کیا گیا ہے جب انھوں نے اپنے والد اور قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں کیا ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ انھوں نے کہا ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔ جنابِ ابراہیم نے کہا کہ تم اور تمھارے باپ کھلی گمراہی میں ہیں۔ لوگوں نے کہا کیا تم واقعی ہمارے پاس حق لے کر آئے ہو یا یونہی مذاق کر رہے ہو؟ تو ابراہیم نے جواب دیا کہ تمھارا رب آسمان اور زمین کا رب ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات کے حق ہونے کی گواہی دیتا ہوں،

علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس دعوتِ توحید پر بستی کے لوگ بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ ابراہیم کو جلا دو اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ ابراہیم کو جلانے کے لیے الاؤ بھڑکایا گیا۔ جب آگ خوب بھڑک اٹھی تو ابراہیم نے دعا مانگی: حسبنا اللہ و تعم الوکیل (ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے)۔ اس پر اللہ نے کہا اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔ اللہ کہتا ہے کہ لوگوں نے جنابِ ابراہیم کے خلاف سازش کرنا چاہی تو ہم نے انھیں بڑا خسارہ پانے والا بنا دیا۔

علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہپھر اللہ نے جنابِ داؤد اور سلیمان کی حکومت کا اور جنابِ ایوب کے صبر کا ذکر کیا کہ آپ شدید بیماری کے باوجود اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوئے۔ اللہ نے ایوب کی دعا قبول کرکے آپ کی تمام مشکلات کو دور فرما دیا۔ جنابِ یونس کے واقعے کا بھی ذکر ہے کہ آپ جب غم کی شدت سے دوچار تھے تو آپ نے پروردگارِ عالم سے دعا کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،

علامہ حقانی نے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایک شخص کی شکایت کے بعد حضرت داود علیہ السلام کا فیصلہ اورپھرحضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلے نے بھی کمال انصاف کیا

سورۃ الانبیاء کے بعد سورہ حج ہے جس کے شروع میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا اور ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس زلزلے کی وجہ سے حاملہ اپنے حمل کو گرا دے گی اور دودھ پلانے والیاں شیر خواروں کو پھینک دیں گی اور لوگ نشے کی حالت میں نظر آئیں گے جب کہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب انتہائی شدید ہوگا۔ پھر اللہ تعالی نے بدر کے معرکے کا ذکر کیا کہ جس میں ایک ہی قبیلے کے لوگ آپس میں ٹکرا گئے تھے اور یہ جنگ نسل، رنگ یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدہ توحید کی بنیاد پر ہوئی تھی۔

علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کی نشان دِہی فرمائی کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو واضح گمراہ ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو تذبذب کا شکار ہیں. جب فراخی ہوتی ہے، دنیوی منافع حاصل ہوتے ہیں تو عبادت کرتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی آزمائش آئے تو پیٹھ پھیر جاتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے دونوں سے علیحدہ رہنے کی ہدایت فرمائی ہے.

علامہ حقانی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے کامل مومنین کی چار صفات کا ذکر بھی فرمایا ہے: جب اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں، مصائب پر صبر کرتے ہیں، نماز کی پابندی کرتے ہیں، اور نیک مصارف میں خرچ کرتے ہیں. نیز یہ خوبی بھی بیان کی ہے کہ ان لوگوں کو اگر اللہ زمین میں تمکنت عطا فرما دے تو بھی یہ نماز کی پابندی کرتے ہیں، زکوٰة ادا کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہتے ہیں.

اللہ تعالیٰ نے قربانی کی قبولیت کے لیے تقویٰ کو شرط قرار دیا کہ اللہ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ کو انسان کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے اور وہ بند برجوں میں چھپ جانے والوں تک بھی پہنچ جاتی ہے. اللہ نے ان مظلوم مسلمانوں کو بھی جہاد کی اجازت دی کہ جن کو بغیر کسی جرم کے ان کے گھروں سے عقیدہ توحید کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔

اس سورت میں اللہ نے ایک مثال کے ذریعے شرک کی تردید کی کہ جن معبودانِ باطل کو لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں ان کی ناتوانی و بے بسی کی کیفیت یہ ہے کہ وہ سارے جمع ہو کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے، اور مکھی بنانا تو دور کی بات ہے، اگر مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اس کو واپس بھی نہیں لے سکتے۔ یہ مانگنے والے بھی کمزور ہیں اور جن سے مانگتے ہیں وہ بھی کمزور ہیں.

درحقیقت انھوں نے خدا کی قدر نہیں جانی جیسی کہ جاننا چاہیے تھی. خدا اگلا پچھلا سب جانتا ہے. اے ایمان والو اگر فلاح چاہتے ہو تو خدا کی عبادت کرو اور اسی کو رکوع و سجدہ کرو. اور خدا کی راہ میں ویسے جہد و جہاد کرو جیسا کہ اس کا حق ہے کیونکہ خدا نے تمھیں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چن لیا ہے، اور نماز و زکوٰة کا اہتمام کرتے ہوئے خدائے حامی و ناصر کے ساتھ کو مضبوط پکڑے رہو. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے

 

 

علامہ سید حسنین موسوی نے سترھویں پارے کے اہم موضوعات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے کا آغاز سورة الانبیاء سے ہوتا ہے۔ سورة انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کاذکر کیا ہے کہ لوگوں کے حساب کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں ۔اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے دین سمجھنے کا طریقہ بھی بتلایا کہ اگر کسی شے کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے اس بارے میں سوال کر لینا چاہیے ۔

علامہ سید حسنین موسوی نے سترھویں پارے کے اہم موضوعات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں توحید ۱۔ قیامت: بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقوع اور حساب کا وقت بہت قریب آگیا ہے، لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔(۱) نیز قربِ قیامت میں یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ رہ بلندی سے اتر رہے ہوں گے۔(۹۶) نیز مشرکین اور ان کے اصنام قیامت کے دن دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔(۹۸) ۲۔ رسالت: رسالت کے ضمن میں سترہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر ہے:

علامہ موسوی نے کہا کہ سابقہ انبیا کے قصے بیان کرنے کے بعد بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین اور دنیا میں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں، آپ نے اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچا دیا، مگر جب ہر قسم کے دلائل پیش کرنے کے بعد بھی لوگ نہ سمجھے تو آپ نے اللہ سے دعا کی ،

علامہ سید حسنین موسوی نے سترھویں پارے کے اہم موضوعات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں قیامت کی ہولناکیوں کے دل دہلانے والی منظر کشی کی گئی ہے۔تخلیق انسان کے بیان کئے ہیں‌

اس پارے میں اللہ نے اس امر کا ذکرکیا ہے کہ جناب ابراہیمںنے اپنے باپ آذر اور اپنی قوم کی بت پرستی کی بھر پور طریقے سے مذمت کی ۔بت پرستی کی مذمت کے ساتھ ساتھ آپ نے اجرام سماویہ کی حقیقت کو بھی لوگوں پر کھول دیا ۔جگمگ کرتے ستارے ‘چانداور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اعلان کردیا میں قوم کے شرک سے بری ہوں اور اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف کرتاہوں ‘جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں شامل نہیں۔

اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ انہیں غیراللہ کے پجاریوں کو گالی نہیں دینی چاہیے کہ یہ لوگ معاذ اللہ جواب میں اللہ کو گالی دیں گے۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ وہ آنکھوں کو پاتا ہے‘ مگر آنکھیں اس کو دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں ‘تاہم سورۃ القیامۃ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ جنتی جنت میں جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت سے بھی بہرہ ور ہو نگے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن مجید پڑھنے ‘سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے

Comments are closed.