لاہور:اجتہاد کی اسلام میں گنجائش ہے ،جدید دورمیں اجتہاد کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے ، علامہ حقانی ،علامہ موسوی کی گفتگو،اطلاعات کے مطابق علامہ عبدالشکورحقانی نے کہا کہ اجتہاد کے بارے پوچھا کہ اجتہاد کیا ہے اور کیا نہیں ہے، اس بارے کچھ روشنی ڈالیں۔ کہنا یہ ہے کہ معاصر دنیا میں اجتہاد اور جہاد دو مظلوم ترین اصطلاحات ہیں کہ ان کے معانی اور مفاہیم میں دو قسم کے طبقات نے غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے، انہوں نے بھی کہ جو اسلام کو اتنا وسیع مفہوم دینا چاہتے ہیں کہ دنیا کے سارے مذاہب اسلام میں داخل ہو جائیں اور وہ بھی کہ جو اسلام کو اس قدر تنگ نظری سے دیکھتے ہیں کہ اپنے امام کے علاوہ انہیں کوئی مجتہد مصیب ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔

اجتہاد اور جہاد دونوں اصطلاحات کا مادہ جہد ہے یعنی محنت اور کوشش کرنا۔ جہاد غلبہ اسلام کے لیے کی جانے والی عملی کاوشوں کا نام ہے تو اجتہاد، دین اسلام کے فکری غلبے کی جدوجہد شمار ہوتی ہے۔ اجتہاد کیا ہے؟ اجتہاد نہ تو شریعت میں اضافے کا نام ہے اور نہ ہی شریعت کو منسوخ کرنا ہے جیسا کہ معاصر دانشوروں کا خیال ہے۔ اجتہادی حکم وہ نہیں ہے جو کتاب وسنت پر مجتہد کا اضافہ ہو یا اجتہادی حکم وہ بھی نہیں ہے کہ جس کے ذریعے کتاب وسنت کے احکامات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص کر دیا جائے بلکہ۔۔۔۔

 

 

 

اجتہاد، کتاب وسنت کی نصوص کی گہرائیوں اور وسعتوں میں حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے۔ اس کو آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ لفظ ایک سمندر ہے اور پھر کتاب وسنت کے الفاظ تو ان کے تو کیا کہنے؟ کتاب وسنت کے الفاظ میں معانی کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ پس جب کوئی مجتہد کتاب وسنت کے لفظ سے کوئی معنی اخذ کرتا ہے، یا اس معنی کی کسی امر واقعی پر تطبیق اور ایپلیکیشن کرتا ہے تو ان دو کاموں میں صرف ہونے والی ذہنی کاوش کو اجتہاد کہتے ہیں۔ ایک کام تو کتاب وسنت کی نصوص میں سے شرعی حکم کی تلاش اور دوسرا اس شرعی حکم کی کسی امر واقعی پر تطبیق اور ایپلیکیشن۔۔۔۔ تخریج المناط ہو، یا تحقیق المناط، دونوں اجتہاد ہی کی صورتیں ہیں۔۔۔۔

اہلِ اجتہاد سے مراد دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے وہ لوگ ہیں جن میں شریعت کے عملی احکام کو ان کے مصادر سے اخذ کرنے کی صلاحیت پائی جائے۔ اس تعریف سے ہر وہ شخص نکل جاتا ہے جو شرعی احکام سے واقف تو ہو لیکن اس میں یہ قابلیت نہ ہو کہ وہ دلائل سے ان کا استنباط کر سکے۔ ایسے شخص کو مجتہد نہیں کہا جائے گا۔

اجتہاد کی شرائط میں سے کچھ تو عام ہیں جیسے عقل، بلوغ، اسلام اور عدالت جب کہ کچھ شرائط خاص ہیں جیسے غور وفکر کی صلاحیت ہونا اور اجتہاد کے طریقوں، استنباط کے قواعد اور اس کے ذرائع کا علم ہونا جیسے قرآن و سنت، لغت اور اصول فقہ وغیرہ سے واقف ہونا۔ اہلِ اجتہاد کی چار قسمیں ہیں: اول: مجتہدِ مطلق۔ اس سے مراد وہ عالم ہے جو بذاتِ خود دین کے احکام کو شرعی دلائل سے اخذ کرسکتا ہو نیز قواعد وعلمی اصول کو مستنبط کر سکتا ہو جیسے امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ وغیرہ۔ دوم: کسی امام کے مذہب کو اختیار کرنے والا مجتہد (مجتہد فی المذہب)۔ اس سے مراد وہ مجتہد ہے جو اس امام کے فتاوی جات، اقوال اور اصول سے واقفیت رکھتا ہے

تاہم نہ تو حکم میں اپنے امام کا مقلد ہوتا ہے اور نہ ہی دلیل میں۔ سوم: کسی امام کے مذہب کو اختیار کرنے والا مجتہد جو اس امام کے اقوال اور فتاوی سے تجاوز نہیں کرتا اور نہ ان کی مخالفت کرتا ہے۔ چہارم: کسی امام کے مذہب میں مجتہد جو اس کے فتاوی کا حافظ ہوتا ہے اور اس نے اپنے آپ پر ہر اعتبار سے اس کی تقلید کرنا لازم ٹھہرا لیا ہوتا ہے۔

مسلمانوں کے ہاں اگر قرآن و سنت کے کسی حکم سے متعلق اتفاق رائے پایا جائے گا کہ یہ حکم اللہ تعالی نے ہمیں دیا ہے تو اس اجماع کو قبول کیا جائے گا اور یہ پوری طرح حجت ہے۔

· ہر عالم دین حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر اجتہاد اور قیاس کرنے کا مکلف ہے۔ جو معلومات اس سے پوشیدہ، وہ ان کی بنیاد پر اجتہاد اور قیاس کرنے کا مکلف نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی استطاعت سے باہر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک عالم کو اپنے علم میں اضافے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

· اجتہاد دینی احکام معلوم کرنے کے عمل کا نام ہے۔ اگر کسی بارے میں قرآن و سنت میں کوئی واضح حکم نہ پایا جائے تو پھر اجتہاد کیا جائے گا اور درست بات تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔

· اجتہاد میں اختلاف رائے ہونا ممکن ہے۔ ہر مجتہد جب دستیاب معلومات کی بنیاد پر اجتہاد کرے گا تو اس کے نتائج دوسرے عالم کے نتائج سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ہر عالم اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا مکلف ہو گا اور ان پر دوسرے کی رائے کے مطابق عمل کرنا ضروری نہ ہو گا۔

· اجتہاد و قیاس صرف ایسے عالم کو کرنا چاہیے جو (کتاب و سنت کے) احکام سے اچھی طرح واقف ہو اور ان احکام سے مشابہت تلاش کرنے میں عقل سے کام لینا جانتا ہو۔

· اس شخص کے سوا کسی اور کو قیاس نہیں کرنا چاہیے جو قیاس کی بنیادوں سے پوری طرح واقف ہے۔ قیاس کی بنیاد کتاب اللہ کے احکام، اس کے فرائض، اس میں سکھائے گئے آداب، اس کے ناسخ و منسوخ احکام، اس کے عمومی اور خصوصی احکام، اور اس کی دی ہوئی ہدایات ہیں۔

· اجتہاد کرتے ہوئے کتاب اللہ کے کسی حکم کی اگر تاویل و توجیہ کی ضرورت ہو تو ایسا سنت رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اگر سنت نہ ملے تو مسلمانوں کے اجماع کی روشنی میں ورنہ قیاس کے ذریعے۔

· کوئی شخص قیاس کرنے کا اہل اس وقت تک نہیں ہے جب تک کہ وہ سنت، اسلاف کے نقطہ ہائے نظر، لوگوں کے اجماع، ان کے اختلاف، اور عربی زبان سے پوری طرح واقف نہ ہو۔ قیاس کرنے والے کو صحیح العقل ہونا چاہیے اور ایسا اس وقت ہو گا جب وہ بظاہر مشابہ امور میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ ثبوت کے بغیر جلد بازی میں رائے قائم کرنے والا نہ ہو۔ وہ اپنے سے مختلف آراء کو بغیر کسی تعصب کے سننے والا ہو۔

· انسان کا جھکاؤ ایک رائے کی طرف زیادہ نہیں ہونا چاہیے یہاں تک کہ اسے یہ علم نہ ہو جائے کہ وہ جو رائے اختیار کرنے جا رہا ہے وہ کس وجہ سے دوسری رائے جسے وہ ترک کر رہا ہے سے زیادہ مضبوط ہے۔

· اگر وہ کسی بات کو سمجھے بغیر محض یادداشت کے سہارے محفوظ کئے ہوئے ہے تو اسے بھی قیاس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ معانی سے واقف نہیں ہے۔

· اگر ایسا شخص جس کی یادداشت اچھی ہے لیکن اس کی عقل میں کمی ہے یا وہ عربی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں تو اس کے لئے قیاس کا استعمال بھی درست نہیں کیونکہ وہ ان آلات (Tools) یعنی عقل اور عربی زبان کو صحیح طرح استعمال نہیں کر سکتا جن کی قیاس میں ضرورت پڑتی ہے۔

· اگر اللہ تعالی نے کسی چھوٹی چیز سے منع فرمایا تو اس پر قیاس کرتے ہوئے اس سے بڑی چیز کو بھی حرام قرار دیا جائے گا۔ مثلاً بدگمانی پر قیاس کرتے ہوئے تہمت لگانے، عیب جوئی کرنے اور کسی عزت اچھالنے کو حرام قرار دیا جائے گا۔ یہ قیاس کی مضبوط ترین شکل ہے۔

 

 

· اگر کوئی حکم استثنائی صورتحال کے لئے دیا گیا ہو تو اسے صرف اسی صورت تک محدود رکھا جائے گا اور اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔

· جو احکام کتاب و سنت میں واضح طور پر بیان فرما دیے گئے ہیں انسے اختلاف کرنا کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں ہے۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جس میں کسی آیت یا حدیث کی مختلف توجیہات ممکن ہوں، اس میں قیاس کیا جا سکتا ہو اور ایک توجیہ یا قیاس کرنے والا عالم ایک معنی کو اختیار کر لے اور دوسرا دوسرے معنی کو، تو ایسا اختلاف جائز ہے۔

· اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صحابہ میں کسی مسئلے پر مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہوں تو اس نقطہ نظر کو اختیار کیا جائے گا جو کتاب اللہ، یا سنت، یا اجماع کے زیادہ قریب ہے یا قیاس کی بنیاد پر جو زیادہ صحیح ہے۔

ایک سوال کے جواب میں علامہ حقانی نے کہا کہ ٹیسٹ ٹیوب بی بی میں اگرپیدا ہونےوالے بچے کے باپ کا نطفہ ماں کے رحم میں اگرطبی طریقے سے داخل کیا جائے تو جائزاوراگرکسی دوسرے مرد کا ڈالا جائے گا تو یہ حرام اور ناجائز ہوگا،

علامہ سید حسنین موسوی نے اجتہاد کے بارے میں کہا کہ
اجتہاد ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں اور ان صورتوں کی الگ الگ کڑی شرائط ہیں جو اصول فقہ وافتا کی کتب میں مفصل درج ہیں، جن کا یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔مختصرا یہ کہ اجتہاد کی بعض صورتوں کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے اور یہ صورتیں ہمیشہ سے قابل عمل رہی ہیں، نت نئے مسائل کے شرعی احکام کی نصوص، اجماع اور قیاس سے دریافت اجتہاد ہی کی ایک صورت ہے جو امت کے سرکردہ اہل علم وفقہ افراد کرتے آئے ہیں،

جب کہ ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے اجتہاد ہی کی بعض دیگر صورتیں قابل عمل نہیں ہیں، اجتہاد کی ان صورتوں کو قابل عمل بنانے یا ایسے اجتہاد کی دعوت دینے کے نتائج دین اسلام کے مسلمات میں تشکیک پیدا کرنے، سلف صالح پر تنقید کرنے اور امت کے پچھلے لوگوں کو گمراہ قرار دینے وغیرہ کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں (بل کہ ہورہے ہیں)،

اور یہ نتائج کئی ایک پہلووں سے امت کی علمی وعملی بنیاد اور ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ ہیں۔ غفلت یا جہالت یا فتنہ انگیزی کی خاطر اگر کوئی شخص اس دوسری صورت کے اجتہاد کی دعوت دیتا ہے تو ایسی دعوت پر کان دھرنے کی بجائے اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ہر گلی محلے کا نوجوان اور بوڑھا اٹھ کر اپنی تئیں مجتہد ہونے کا دعوے دار بن کر اجتہاد کرنے لگ جائے تو ایسا اجتہاد اہم دینی فریضہ نہیں ہو گا، ایک کھیل ہوگا۔

Shares: