لاہور:انبیا اللہ کی وحدانیت کا پیغآم لے کرآئے جس نے مان لیا امان پا گیا، نہ ماننے والے قیامت کے پچھتائیں گے مگراس وقت کوئی فائدہ نہ ہوگا، علامہ حقانی ، علامہ موسوی کی علمی گفتگو،تفصیلات کے مطابق باغی ٹی وی کی رمضان ٹرانسمینش کا سلسلہ جاری ہے اوروقت کے ساتھ ساتھ قرآن کی تعلیمات کا سلسلہ بھی آگے بڑھ رہا ہے ، آج انیسویں پارے کی تفسیر بیان کرتے ہوئے معروف عالم دین ، محقق علامہ عبدالشکورحقانی اورعلامہ سید حسنین موسوی نے خوبصورت انداز میں اہم موضوعات بیان کئے ،
علامہ عبدالشکورحقانی نے اس پارے کے اہم موضوعات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے کی ابتدا میں بتایا گیا کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے اور طرح طرح کے اعتراضات اور مطالبے کرتے تھے، ان کی حالت قابل دید ہو گی۔ ظالم اور گمراہ تمنا کریں گے کہ رسولؐ کا ساتھ دیتے، ان لوگوں کا ساتھ نہ دیتے، جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ایک انتہائی خوفناک اور تلخ حقیقت یہ ہو گی کہ قیامت کے دن رسول اللہؐ، اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کریں گے کہ میری قوم نے قران جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کی اور اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں حضرت موسیٰؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت نوحؑ اور قوم عاد، ثمود، اصحاب الرس کا ذکر کیا کہ نافرمانی کے نتیجے میں تباہ ہوئیں، ساتھ ہی اللہ نے اپنے نبیؐ کو تسلی دی کہ مشرکین مکہ کی نافرمانی اور ایذا رسانی کی پروا نہ کریں، انہوں نے گزشتہ قوموں سے عبرت حاصل نہیں کی اور ان کا بھی یہی وطیرہ تھا۔
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں سورت کے شروع میں حضورﷺ کی امت کے لئے کہ وہ ایمان اور ہدایت پر آ جائے، قلبی کیفیت اور تڑپ بیان کرتے ہوئے کہا اے نبیؐ! اگر کچھ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپؐ ان کے غم میں اپنی جان کو مت گھلائیں، بے شک ہم ایسی نشانیاں نازل کر سکتے ہیں، جن کے آگے منکرین کی گردنیں جھک جائیں، لیکن یہ لوگ حق کو جھٹلا چکے ہیں اس لئے انہیں عنقریب اپنے کئے کی سزا ملے گی۔
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے واقعات کا تفصیل سے ذکر ہے کہ موسیٰؑ کس طرح فرعون کے دربار میں پہنچے، اسے اللہ کا پیغام پہنچایا، اس کو معجزات دکھائے لیکن وہ برابر انکار کرتا رہا اور حضرت موسیٰؑ پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور موسیٰؑ کے مقابلے پر جادوگروں کو جمع کیا اور مقابلہ کرایا، جادوگر معجزہ دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں ہو سکتا اور وہ حضرت موسیٰؑ اور ان کے رب پر ایمان لے آئے جس پر فرعون نے جادوگروں کو سخت سزائیں دینے کی دھمکی دی، مگر وہ ثابت قدم رہے۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ (1) حق کے مقابلے میں باطل نہیں ٹھہر سکتا (2) جب حق ظاہر ہو جائے تو جادوگروں کی طرح فوراً قبول کر لینا چاہئے، فرعون کی طرح ہٹ دھرمی نہیں کرنی چاہئے (3) حق پر جمے رہنا چاہئے کہ آخرکار فتح حق کی ہوتی ہے اور ظالموں کا مقدر
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ہدایت فرمائی کہ ایمان والوں کو راتوں رات اپنے ساتھ لے کر روانہ ہو جائو، فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا تو موسیٰؑ نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی سمندر پر ماری تو بارہ راستے بن گئے اور آپؑ ساتھیوں سمیت سمندر میں اتر گئے۔ فرعون بھی اپنے لشکر سمیت سمندر میں اتر گیا، جب موسیٰؑ کے لشکر کا آخری آدمی بھی سمندر سے باہر نکل آیا اور فرعون کے لشکر کا آخری آدمی سمندر میں اتر گیا، تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو مل جانے کا حکم دیا اس طرح حضرت موسیٰؑ اپنے لشکر سمیت پار ہو گئے اور فرعون تمام فرعونیوں سمیت غرق ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نشان عبرت ٹھہرا۔
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں حضرت ابراہیمؑ کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے سامنے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عظیم صفات کا ذکر کر کے انہیں بت پرستی سے روکنے کی کوشش کی، توحید کا نہایت موثر انداز میں سبق دیا۔حضرت نوحؑ کی دعوت اور ان کی قوم کے انکار اور سرکشی اور پھر سرکشی پر اصرار اور پھر طوفان سے سرکش قوم کی ہلاکت اور حضرت نوحؑ اور مومنین کی نجات کا ذکر ہے۔حضرت ہودؑ اور ان کی قوم، قوم عاد کا ذکر ہے کہ انہیں ہودؑ نے اللہ کی طرف دعوت دی مگر وہ نہ مانے اور تکبر کیا، اللہ کی نشانی کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں عذاب الٰہی کا شکار ہوئے، ہودؑ اور ماننے والے بچا لئے گئے۔
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں حضرت صالحؑ اور ان کی قوم ثمود کا ذکر ہے، صالحؑ نے انہیں توحید کی تعلیم دی اور اللہ کی طرف بلایا، ان کے معجزہ طلب کرنے پر اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر پہاڑ سے اونٹنی نکالی اور صالح نے قوم کو خبردار کیا کہ اونٹنی کو کوئی نقصان نہ پہنچے مگر سرکشوں نے اونٹنی کی کونچ کاٹ ڈالی تو قوم عذاب الٰہی کا شکار ہوئی۔حضرت لوطؑ کی قوم کا ذکر ہے جس نے ناصرف آپ کی دعوت سے انکار کیا بلکہ انتہائی فحاشی اور بے حیائی اپنا کر غیرفطری فعل کو سرانجام دیتی جس پر سخت عذاب کا شکار ہوئی، بستی الٹا دی گئی اور پتھروں کی بارش ہوئی۔حضرت شعیبؑ اور ان کی قوم کا ذکر ہے، جس نے ناصرف شعیبؑ کی مخالفت کی بلکہ ناپ تول میں کمی کر کے عذاب الٰہی کا شکار ہوئی۔
:
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پروردگار کی طرف سے حضرت جبرائیل امینؑ کے ذریعے نبی اکرمﷺ کے قلب مبارک پر نازل کیا گیا۔شاعروں کی تین خرابیاں بیان کی گئیں (1) ان کے پیروکار عموماً گمراہ قسم کے بہکے ہوئے لوگ ہوتے ہیں (2) ان کے قول اور فعل میں تضاد ہوتا ہے (3) شعراء خیالات کی وادیوں میں گھومتے رہتے ہیں۔نیک سیرت شعراء بھی ہوتے ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور ان عیبوں سے پاک ہوتے ہیں۔
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ترتیبی اعتبار سے قرآن پاک کی ستائیسویں سورت ہے، جب کہ اس کا نزولی نمبر48ہے، یہ مکی سورت ہے۔ نمل عربی میں چیونٹی کو کہتے ہیں اس سورت میں وادی النمل (چیونٹیوں کی وادی) کا ذکر آیا ہے اس مناسبت سے سورہ نمل کہلاتی ہے۔قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہے، اہل ایمان کے لئے ہدایت اور خوشخبری ہے جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ منکرین آخرت سخت نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔عبرت و نصیحت کے لئے دوبارہ حضرت موسیٰؑ کی نبوت و رسالت اور معجزات اور فرعون کی غرقابی کا ذکر ہے۔
یہ اللہ کے عظیم الشان پیغمبر تھے جو بادشاہ بھی تھے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں، جنات اور پرندوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا تھا، سب پر ان کی بادشاہت تھی، ایک دن حضرت سلیمانؑ کا گزر اپنے لشکر کے ساتھ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے ہوا تو انہوں نے سنا ’’ایک چیونٹی دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی کہ جلدی سے اپنے بلوں میں داخل ہو جائو کہ کہیں سلیمانؑ اور ان کا لشکر بے خبری میں تمہیں روند نہ ڈالے‘‘ سلیمانؑ چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے بہت سی نعمتیں عطا کیں
علامہ عبالدشکورحقانی نے انیسویں پارے کے اہم موضوعات کا خلاضہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سلیمانؑ کے دربار میں مستقل طور پر رہنے والوں میں ایک پرندہ ہدہد بھی تھا جس نے ایک دن عظیم ملکہ سبا، اس کے بے مثال تخت اور قوم کی اطلاع دی کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پوجا کرتے ہیں، سلیمانؑ نے خط بھیج کر ملکہ سبا کو اپنے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا، ملکہ سبا جسے اپنی مملکت، مادی اسباب پر بڑا ناز تھا، سلیمان کی حکومت اور سج دھج دیکھ کر حیران رہ گئی اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔صالحؑ اور ان کی قوم کا ذکر ہے اور نو سرداروں کا ذکر ہے، جنہوں نے قسم کھائی تھی کہ اللہ کے نبی کو اچانک حملہ کر کے قتل کریں گے لیکن وہ اپنے ارادے پر عمل کرنے سے پہلے ہی اللہ کے عذاب کا شکار ہو گئے۔
علامہ سید حسنین موسوی نے کہا کہ اس پارے کی ابتدا میں بتایا گیا کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے اور طرح طرح کے اعتراضات اور مطالبے کرتے تھے، ان کی حالت قابل دید ہو گی۔ ظالم اور گمراہ تمنا کریں گے کہ رسولؐ کا ساتھ دیتے، ان لوگوں کا ساتھ نہ دیتے، جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ایک انتہائی خوفناک اور تلخ حقیقت یہ ہو گی کہ قیامت کے دن رسول اللہؐ، اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کریں گے کہ میری قوم نے قران جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کی اور اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔
علامہ سید حسنین موسوی نے کہا کہ اس پارے میں تین حصے ہیں: سورۂ فرقان سورۂ شعراء سورۂ نمل سورۂ فرقان کے بقیہ حصے میں چار باتیں یہ ہیں قیامت توحید (آسمان ، زمین اور رات دن کا خالق اللہ ہی ہے۔) رسالت (نبی کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔) عباد الرحمٰن کی صفات (عاجزی سے چلنا ، جاہلوں سے اعراض ، راتوں کو عبادت ، جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنا ، خرچ کرنے میں اعتدال ، فضول خرچی نہ کرنا بھی احکام الہی میںشامل ہے
علامہ سید حسنین موسوی نے کہا کہ نے کہا کہ اس پارے میں بخل ، شرک سے اجتناب ، قتل ناحق سے بچنا ، بدکاری سے پرہیز ، جھوٹی گواہی سے احتراز ، بری مجالس سے پہلوتہی ، کتاب اللہ سے متاثر ہونا ، نیک بیوی بچوں کی دعا اور یہ دعا کہ ہمیں ہادی اور مہتدی بنا) سورۂ شعراء میں تین باتیں یہ ہیں سات انبیائے کرام کے قصے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ہود علیہ السلام ، حضرت صالح علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت شعیب علیہ السلام) قرآن کی حقانیت اسے رب العالمین نے اتارا ہے ،
علامہ سید حسنین موسوی نے کہا کہ نے تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں روح امین حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر ، لوگوں کو ڈرانے اور متنبہ کرنے کے لیے ، واضح عربی زبان میں۔ شعراء کی مذمت کہ ان کے پیچھے تو بے راہ لوگ چلتے ہیں ، یہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ،ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں ، البتہ وہ لوگ مستثنی ہیں جو ایمان لائے اور نیک اعمال اختیار کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا سورۂ نمل کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں: قرآن کی عظمت پانچ انبیائے کرام کا ذکر: حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت صالح علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام۔ بالخصوص واقعۂ نمل ، واقعۂ ہدہد اور واقعۂ ملکہ سبا کا واقعہ شامل ہے








