قرآن میں انبیا کے واقعات ایمان والوں کے لیے مشعل راہ ہیں ، علامہ حقانی اورعلامہ موسوی کی علمی گفتگو

0
63

لاہور :قرآن میں انبیا کے واقعات ایمان والوں کے لیے مشعل راہ ہیں ، علامہ حقانی اورعلامہ موسوی کی علمی گفتگو،آج بھی حسب سابق باغی ٹی وی کی رمضان نشریات میں علمائے کرام نے قران کے اہم موضوعات پراپنی علمی گفتگو کرکے سننے والوں کے لیے زبردست رہنمائی پیش کی ہے ، علامہ حقانی نے کہا کہ تیرہویں پارے کا آغاز بھی سورہ یوسف سے ہوتا ہے۔ جناب یوسف ؑجب جیل سے آزاد ہوگئے تو بادشاہ نے جناب یوسف ؑکو اپنے قریبی مصاحبین میں شامل کر لیا ۔آپ ؑ ابتدا ئی طور پر وزیر خزانہ اور بعد میں عزیز مصر کے منصب پر فائز ہوگئے ۔

علامہ عبدالشکورحقانی نے کہا کہ جناب یوسفؑ نے زرعی نظام کو بڑی توجہ سے چلایا اور خوشحالی کے سات سالوں میں مستقبل کے لیے بہترین پلاننگ کی یہاں تک کہ جب پوری دنیا میں قحط سالی عام ہو گئی تو مصر کی معیشت انتہائی مضبوط اور مستحکم ہوچکی تھی۔قحط سالی اپنے عروج پر پہنچی تو غلے کے حصول کے لیے دنیا بھر سے قافلے مصر پہنچنے شروع ہوگئے ۔جناب یعقوبؑ کے بیٹوں نے بھی مصر کا رخ کیا ۔جب وہ عزیز مصر کے محل میں داخل ہوئے تو جناب یو سف ؑ اپنے بھائیوں کو پہچان گئے ‘جب کہ آپ کے بھائی آپ سے غافل تھے ۔ آپ نے باتوں باتوں میں اپنے بھائیوں سے کہا کہ اگلی مرتبہ اپنے چھوٹے بھائی بنیا مین کو بھی ساتھ لانا‘ اگر تم اپنے چھوٹے بھائی کو نہ لائے تو تمہیں غلے سے کچھ بھی نہیں ملے گا اور ساتھ ہی جو پونجی ان کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے لائے تھے اس کو بھی اپنے بھائیوں کے سامان میں ڈال دیا ۔

 

https://www.youtube.com/watch?v=etMJ-x4GFjA

جب جناب یوسف ؑ کے بھائی جناب یعقوبؑ کے پاس پہنچے تو انہوں نے عزیز مصر کی بہت زیادہ تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ عزیز مصر کی خواہش تھی کہ ہم بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے کر جائیں۔جناب یعقوب ؑ نے جواب میں کہا کہ کیا میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں ‘جس طرح میں نے اس سے قبل یوسفؑ کے معاملے میں تم پر اعتماد کیا تھا۔اس پر جناب یعقوبؑ کے بیٹے خاموش ہو گئے۔جب سامان کھولا گیا تو اس میں سے غلے کے ساتھ ساتھ پونجی بھی برآمد ہو گئی۔اس پر یعقوب ؑ کے بیٹوں نے کہا دیکھیے بابا عزیز مصر نے تو ہماری پونجی بھی ہمیں دے دی ہے ۔اب‘ جناب یعقوب ؑ نے کہا کہ میں بنیامین کو تمہارے ساتھ اس صورت میں روانہ کروں گا کہ تم اس کی حفاظت کی قسم کھائو۔بیٹوں نے اپنے والد گرامی جناب یعقوب ؑ کے سامنے حلف دیا تو اپنے زمانے کے نبی جناب یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ جب مصر میں داخلے کا وقت آئے تو علیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخل ہونا ۔

جب یوسف ؑ کے بھائی دوبارہ ان کے پاس پہنچے تو جناب یوسفؑ نے جناب بنیامین کو علیحدہ ایک طرف کر لیا اور ان سے کہا کہ میں آپ کا بھائی یوسف ؑہوں ۔اس کے بعد یوسف ؑ نے اپنا پیالہ جناب بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا ۔جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو اعلان کروایا گیا کہ قافلے والو تم چور ہو۔جناب یعقوبؑ کے بیٹوں نے جواب میں کہا کہ اللہ کی قسم ہم زمین پر فساد پھیلانے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں ۔اس پر ا ن سے کہا گیا کہ اگر تم میں سے کسی کے سامان سے بادشاہ کا پیالہ برآمد ہوگیا تو اس کی کیا سزا ہو گی؟ جواب میں جناب یوسف ؑ کے بھائیوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جو مجرم ہوگا وہ خود اپنے کیے کا ذمہ دار ہو گا۔ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو جناب بنیا مین کے سامان میں سے پیالہ برآمد ہو گیا ۔جناب یوسف ؑ کے بھائیوں نے اس موقع پر بڑے عجیب ردعمل کا اظہار کیااور کہا کہ اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو اس سے قبل ان کے بھائی یوسفؑ نے بھی چوری کی تھی۔ اس پر جناب یوسف ؑنے کہا کہ جو تم الزام تراشی کرتے ہو اس کی حقیقت سے اللہ تعالیٰ بخوبی آگاہ ہیں۔ جناب یوسف ؑ کے بھائیوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہم بھائیوں میں سے کسی ایک کو پکڑلیں۔ جناب یوسف ؑ نے کہا کہ معاذ اللہ ہم کسی مجرم کی جگہ کسی دوسرے کو کس طرح پکڑ سکتے ہیں۔ جناب یوسف ؑکے ایک بھائی نے کہا کہ میں تو واپس نہیں جا ئوں گا یہاں تک کہ بابا یعقوبؑ مجھے اجازت نہیں دیں گے یا اللہ تعالیٰ میرے حق میں کوئی فیصلہ نہیں فرمادیتے ۔

جناب یوسف ؑ کے بھائی جناب یعقوب ؑ کے پاس پہنچے اور ان کو جناب بنیامین کی گرفتاری کی خبر دی تو جناب یعقوبؑ نے بلند آواز سے جناب یوسف ؑکا نام لیا اور آپ اتنی شدت سے روئے کہ آپ کی بینائی بھی گل ہو گئی۔ جناب یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ آپ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں اور جناب یوسف ؑ اور ان کے بھائی کو تلاش کریں۔

اب جناب یوسف ؑ کے بعض بھائی دوبارہ مصر آئے تو حالت بدلی ہوئی تھی ۔غربت اور مفلوک الحالی نے ان کو بری طرح متاثر کیا ہوا تھا‘ انہوں نے جناب یوسف ؑ کے پاس آکر اپنی غربت کی شکایت کی اورصدقے کا تقاضاکیا تو جناب یوسفؑ نے پوچھا کیاآپ بھول گئے جو آپ نے اپنے بھائی یوسفؑ کے ساتھ کیا۔ بھائیوں نے کہا کہ آپ یوسفؑ کو کیسے جانتے ہیں کہیں آپ ہی تو یوسفؑ نہیں؟کہا میں یوسف ؑہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا‘ بے شک جو صبر اور تقویٰ کو اختیار کرتا ہے تو اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اس موقع پر جناب یوسفؑ کے بھائی انتہائی شرمسار ہوئے اور انہوں نے آپ سے معافی چاہی تو جناب یوسف ؑ نے کہا کہ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور اللہ بھی تمہیں معاف کرے۔ جناب یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو اپنی قمیض اتار کر دی اور کہا کہ جناب یعقوبؑ کے چہرے پر ڈالنا ان کی بینائی واپس آجائے گی اور آئندہ ان کو بھی اپنے ہمراہ لانا۔

جناب یعقوب ؑکے بیٹے جب آپ کی قمیص لے کر روانہ ہوئے ‘تو جناب یعقوب ؑ نے اپنے گھر میں موجود بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے بیٹے یوسف ؑکی خوشبو آرہی ہے۔ اس پر بیٹوں نے کچھ بے ادبی والے الفاظ کہے جناب یعقوبؑ خاموش ہو گئے۔ جب مصر سے آپ کے بیٹے آئے اور انہوں نے آپ کے چہرے پر قمیض ڈالی تو جناب یعقوب کی بینائی واپس آگئی۔ جناب یعقوب کے گھر میں موجود بیٹوں نے ان سے معافی طلب کی۔آپ نے اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا۔ سب اہل خانہ مصر کو روانہ ہوئے۔ جب جناب یوسف ؑ کے پاس پہنچے تو آپ نے جناب یعقوبؑ کو تخت پر بٹھالیا۔ جناب یعقوب ؑ اور ان کے گیارہ بیٹے جناب یوسف ؑ کے سامنے جھک گئے۔ اس شریعت میں تعظیمی سجدہ جائز تھا جبکہ مسلمانوں کے لیے تعظیمی سجدہ منع ہے۔ حضرت یوسف ؑ نے اس موقع پر پروردگار عالم کا شکرادا کیا اور دعا مانگی کہ ا ے میرے پروردگار ! مجھے اسلام پر موت دینا اور صالحین کے ساتھ ملا دینا۔ جناب یوسف ؑ کا واقعہ عروج وزوال کی ایک داستان اور صبر اور استقامت کی دستاویز ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ صبر کا پھل ضرور دیتا ہے‘ چاہے اس میں کچھ دیر ہو ۔

اس کے بعد سورۃ الرعد ہے۔ آغازمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں جتلاتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کے پھل پیدا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ہر قوم میں ایک ہادی مبعوث فرمایا۔ یہ بھی بتلایا کہ بجلی کی کڑک اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کرتی ہے اور فرشتے اللہ کے خوف سے کانپتے ہیں ۔فرمایا کہ دلوں کا امن اور سکون اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے حاصل ہو تا ہے ۔

اس کے بعد سورہ ابراہیم ہے۔جناب ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کی دنیاوی اوراخروی فلاح وبہبود کے لیے بہت سی دعائیں مانگیں اور ہر وقت ا للہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جذبات سے معمور رہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت میں ہمارے لیے یہ درس اور سبق موجود ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور کسی بھی وقت اس کی حمد کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن مجید میں بیان کردہ مضامین سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔

تیرہویں پارے کا آغاز بھی سورہ یوسف سے ہوتا ہے‘ جبکہ سورہ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے حوالے سے ہمارے لیے یہ درس اور سبق موجود ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور کسی بھی وقت اس کی حمد کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن مجید میں بیان کردہ مضامین سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے

علامہ سید حسنین موسوی نے تیرہویں پارے کے اہم مقامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ
اس پارے میں تین حصے ہیں:​
۱۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ رعد مکمل
۳۔ سورۂ ابراہیم مکمل
(۱) سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ:
اس کی تفصیل پچھلے پارے میں مذکور ہوچکی ہے۔
(۲) سورۂ رعد میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآن کی حقانیت
۲۔ توحید
۳۔ قیامت
۴۔ رسالت
۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات
۱۔ قرآن کی حقانیت:
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان کی ابتدا میں عام طور پر قرآن کا ذکر ہوتا ہے، ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللہ انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔
۲۔ توحید:
آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں، ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور موت اور زندگی ، نفع اور نقصان اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔
۳۔ قیامت:
مشرکوں کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت باعثِ تعجب بعث بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا باعث تعجب ہے۔
۴۔ رسالت:
ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی رہنما اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔
۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات:
متقین کی آٹھ صفات: (۱)وفاداری (۲)صلہ رحمی (۳)خوف خدا (۴)خوف آخرت (۵)صبر (۶)نماز کی پابندی (۷)صدقہ (۸)برائی کا بدلہ اچھائی سے
اشقیاء کی تین علامات: (۱)وعدہ خلافی (۲)قطع رحمی (۳)فساد فی الارض
(۳) سورۂ ابراہیم میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ قیامت
۴۔ چند اہم باتیں
۵۔ چھ دعائیں
۱۔ توحید:
تمام آسمانوں اور زمینوں کو اللہ نے بنایا ہے، اسی نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر انسانوں کے لیے زمین سے قسم قسم کے پھل نکالے اور پانی کی سواریوں اور نہروں کو انسانوں کے تابع کردیا اور سورج اور چاند اور رات اور دن کو انسانوں کے کام میں لگادیا، غرض جو کچھ انسانوں نے مانگا اللہ نے عطا کیا، اس کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں

کہ ان کی گنتی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔
۲۔ رسالت:
اس کے ضمن میں کچھ باتیں یہ ہیں:
۱۔ نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے بتایا گیا ہے کہ سابقہ انبیاء کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے اعراض و انکار اور عداوت و مخالفت کا یہی رویہ اختیار کیا تھا، جو آپ کی قوم اختیار کیے ہوئے ہے۔
۲۔ ہر نبی اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا ہے۔
۳۔ پچھلی قوموں کے مکذبین کے کچھ شبہات کا ذکر کیا گیا ہے: (۱)اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں شک (۲)بشر رسول نہیں ہوسکتا (۳)تقلید آباء۔ ان شبہات کی تردید کی گئی ہے۔
۳۔ قیامت:
کافروں کے لیے جہنم اور مومنین کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا ذکر ہے۔ روزِ قیامت حساب کتاب ہوچکنے کے بعد شیطان گمراہوں سے کہے گا کہ جو وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو

سچا تھا اور اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا ، میں نے تم پر زبردستی نہیں کی تھی، تم خود میرے بہکاوے میں آگئے تھے، اب مجھے ملامت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔
۴۔ چند اہم باتیں:
(۱) شکر سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکروں کے لیے اللہ تعالٰی کا سخت عذاب ہے۔
(۲) کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ تیز ہوا آئے اور سب اڑا لے جائے۔
(۳) حق اور ایمان کا کلمہ پاکیزہ درخت کی مانند ہے ، اس کی جڑ بڑی مضبوط اور اس کا پھل بڑا شیریں ہوتا ہے اور باطل اور ضلالت کا کلمہ ناپاک درخت کی مانند ہے ، اس کے لیے قرار بھی نہیں ہوتا اور وہ ہوتا بھی بے ثمر ہے۔
(۴) اللہ تعالیٰ ظالموں کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔
۵۔چھ دعائیں:
حضرت ابرہیم علیہ السلام کی اپنے رب سے چھ دعاؤں کا ذکر ہے:
(۱)امن (۲)بت پرستی سے حفاظت (۳)اقامتِ صلاۃ (۴)دلوں کا میلان (۵)رزق (۶)مغفرت کی درخواست

Leave a reply