پاکستان میں آج کل سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ مختلف سیاسی نظریات اور مفادات کے درمیان ایک کشمکش کا ماحول ہے۔ الزامات لگتے ہیں، جوابی الزامات لگتے ہیں، کردارکشی ہوتی ہے اور اب تو کردارکشی کے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے آڈیو اور وڈیو بھی تیار کرکے بلیک میلنگ کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس ساری کشمکش میں اتنی گرد اڑائی جاتی ہے کہ لوگوں کے ذہن سے یہ بات یکسر محو ہو جاتی ہے کہ اس ملک خداداد کو قائم کرنے کا مقصد کیا تھا۔
برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے قیام کا تصور شاعر، فلاسفر اور وکیل علامہ اقبال نے پیش کیا تھا۔ برصغیر سے مغل حکومت کے خاتمے کے بعد اس بات کے واضح اشارے ملنے لگے تھے کہ اگر انگریز ہندوستان سے نکل گئے تو ہندو اپنی اکثریت کے بل پر مسلمانوں کا استحصال کریں گے۔ انیسویں صدی کے لسانی فسادات کے بعد سرسید احمد خان بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ثقافتی تضادات کی وجہ سے دونوں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ بعد کے واقعات نے ان خدشات کی تصدیق کر دی۔
ہندوؤں نے آل انڈیا کانگریس قائم کی اور اس کا پہلا سربراہ ایک انگریز کو بنایا گیا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ کانگریس تمام ہندوستانیوں کی نمائندہ جماعت ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ 1905 کے تقسیم بنگال کے فیصلے کے بعد کانگریس اور قوم پرست ہندوؤں کا ردِعمل واضح طور پر مسلم دشمنی کا مظہر تھا۔ جب مسلمان لیڈروں کو احساس ہوا کہ آل انڈیا کانگریس اصل میں آل ہندو کانگریس ہے تو اس کے جواب میں 1906ء میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ تقسیم بنگال، جو تمدنی اور معاشی طور پر بنگالی مسلمانوں کے لئے فائدہ مند تھی، ہندوؤں کو منظور نہ تھی۔ ان کے شدید ایجی ٹیشن نے انگریزوں کو صرف چھ سال بعد ہی تقسیم بنگال کی تنسیخ پر مجبور کر دیا۔ یہی بات مسلم زعما کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھی۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اپنے حقوق کے لئے انہیں اپنے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح، جو کانگریس کے بنیادی رکن اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے، ہندوؤں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس اتحاد سے مایوس ہو کر برطانیہ چلے گئے تھے۔
اس پس منظر میں علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبۂ آلہ آباد میں ہندوستان کی تقسیم کا تصور پیش کیا۔ اس خطبے کا مرکزی نکتہ ہی مسلمانوں کی جداگانہ قومیت اور ان کے لئے متحدہ ہندوستان کے اندر ایک علیحدہ ریاست کا حصول تھا۔ یہ خیال رہے کہ اقبال نے جداگانہ مسلم قومیت کا تصور اس وقت پیش کیا جب پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا نیشن سٹیٹ کے جدید تصور کو اپنا چکی تھی اور ترکی کی عثمانی سلطنت کے حصے بخرے کئے جا چکے تھے۔ کیونکہ اقبال اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملت سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے نیشن سٹیٹ کو مسترد کرتے ہوئے لکھا تھا:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
1930ء کا خطبۂ الہ آباد انگریزی زبان میں ہے اور قدرے طویل ہے کیونکہ اس میں علمی اور نظریاتی مسائل کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس خطبے میں اقبال نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پنجاب ،شمال مغربی صوبہ سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ہی ریاست میں مدغم کر دیا جائے۔ ان کا ابتدائی تصور "ہندوستان کے اندر مسلم ہندوستان” تھا۔ ان کا خواب یہ تھا کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں سلطنت برطانیہ کے اندر یا اس کے باہر ایک خود مختار حکومت اور شمالی مغربی متحدہ مسلم ریاست آخر کار مسلمانوں کا مقدر ہے۔ آلہ آباد سے پہلے یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی مگر کمیٹی نے اس بنا پر مسترد کر دی کہ اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو اتنی وسیع ریاست وجود میں آجائے گی کہ جس کا انتظام مشکل ہوگا۔
اقبال نے یہ بھی تجویز پیش کی: "جہاں تک رقبہ کا تعلق ہے یہ بات درست ہے لیکن آبادی کے لحاظ سےمجوزہ ریاست بعض موجودہ ہندوستانی صوبوں سے چھوٹی ہو گی۔ انبالہ ڈویژن اور ممکن ہے ایسے اضلاع کو الگ کر دینے سے جہاں غیرمسلموں کی اکثریت ہے اس کی وسعت اور بھی کم ہو جائے گی۔ مسلمانوں کی تعداد میں غلبہ ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی حدود کے اندر یہ متحدہ ریاست غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت پوری قوت سے کر سکے گی-”
اقبال نے قائد اعظم کو ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لئے مسلمانوں کی قیادت کے لئے قائل کیا جس کے نتیجے میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ بدقسمتی سے اقبال اور قائد کی وفات کے بعد پاکستان ان لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا جن کا پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے قائد کی وفات کے بعد ان کی گیارہ اگست والی تقریر میں دئے گئے وژن کو مسترد کرنے کے لئے "قرارداد مقاصد” منظور کرائی۔ اقبال اور قائد مسلمانوں کے لئے ایک جمہوری ملک کا تصور رکھتے تھے جس کو مسخ کر کے کبھی سوشلزم کے تجربے کئے گئے کبھی قرون اولیٰ کی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی۔
اقبال اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان مسلمانوں کی جمہوری ریاست ہے جس میں دوسری قومیتوں کو نہ صرف برابر کے حقوق حاصل ہوں گے بلکہ مجوزہ مسلم ریاست ہندوستان کے غیرمسلموں کے حقوق کا بھی تحفظ کرے گی۔ گیارہ اگست کی تقریر بھی خطبۂ الہ آباد کی روح کے عین مطابق ہے انہوں نے کسی مرحلے پر بھی اسے بادشاہت کے تحت مذہبی ریاست بنانے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اسی لئے مولویوں نے اس کے قیام کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔
پاکستان کو خطبۂ الہ آباد اور گیارہ اگست کی روح کے مطابق ڈھالنے کے لئے ضروری ہے کہ رواداری کو فروغ دیا جائے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور ملک کی تاریخ کو مسخ کرنے سے گریز جائے۔ پاکستان ہندوستان کی ہندو اکثریت کے ہاتھوں مسلم اقلیت کے استحصال کو روکنے کے لئے ایک جمہوری ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا۔ اس کے مقصد قیام کو بار بار مسخ کیا گیا تاکہ ان طبقات کو پاکستان پر کنٹرول کرنے کا جواز دیا جا سکے جنہوں نے اس کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔
ہم شرمندہ ہیں!! (سانحہ جڑانوالہ) ،ازقلم:حسین ثاقب