لاہور :اعتکاف مسجد میں ہی ہوتا ہے ، اعتکاف کرنے والے کو دو حج اوردوعمروں کا ثواب ملتا ہے ، علامہ حقانی ،علامہ موسی کی گفتگو،اطلاعات کے مطابق علامہ حقانی اورعلامہ موسوی نے اعتکاف کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اپنے اپنے علم کے مطابق اہم نقات پرروشنی ڈالی ہے ،

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ٹھہر جانا اور خود کو روک لینا۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں۔
بیہقی کی روایت ہے کہ جس نے عشرہ رمضان کا اعتکاف کیا، یہ دو حج اور دو عمروں کی طرح ہوگا۔جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑے فرمادیتا ہے ۔جس کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہوتی ہے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے۔

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اور حکم دیا کرتے تھے کہ اسی میں شب قدر کو تلاش کرو۔

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسولِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے۔

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ مرد حضرات مسجد میں اعتکاف کریں اور خواتین اپنے گھروں میں۔ ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں۔ خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔اگر گھر میں نماز پڑھنے کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہوتو اعتکاف کرنے والی خواتین کو اعتکاف کے لیے گھر میں کوئی مناسب گوشہ مقرر کر لینا چاہیے۔

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ اعتکاف کارکن اعظم یہ ہے کہ انسان اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود میں رہے اور ضروری حاجات کے سوا ایک لمحے کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلے۔بہت سے لوگ حدود مسجد کامطلب نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے ان کا اعتکاف ٹو ٹ جاتا ہے ۔اس لیے خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حدود مسجد کا کیا مطلب ہے۔ عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کومسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے وضو خانہ، استنجا خانہ، امام یا مؤذن کا حجرہ وغیرہ مسجد میں داخل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اعتکاف کرتے وقت امام یا مؤذن صاحبان سے مسجد کی حدود معلوم کرلینا بہت ضروری ہے۔

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ شرعی ضرورت کی وجہ سے معتکف مسجد سے نکل سکتا ہے مثلاً بیت الخلاء جانے کے لیے، وضو کے لیے، اگر کوئی کھانا لانے والا نہ ہو تو کھانا کھانے کے لیے،غسل جنابت کے لیے ،موذن کا اذان دینے کے لیے،جس مسجد میں اعتکاف کیا ہے اگر اس میں جمعہ کی نما زنہ ہوتی ہو تو جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد جانے کے لیے۔

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ بلا ضرورت مسجد سے باہر نکلناخواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر غلطی سے ،ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ اگر بھول کر یا غلطی سے باہر نکلا ہے تو اس سے اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا، مثلاً کوئی شخص ایسی جگہ کو مسجد سمجھ کر چلا گیا جو

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ اسلام میں چپ کا روزہ نہیں ہے کہ اعتکاف کی حالت میں کوئی بات ہی نہ کی جائے البتہ اتنا ضرور ہے کہ ضرورت کے مطابق بات کی جائے، بلا ضرورت اِدھر اُدھر کے تبصرے، لطیفہ گوئی، قصے کہانیاں، غیبت اور بہتان تراشی جیسے ناپسندیدہ امور سے بچیں۔ بلاضرورت گفتگو اعتکاف کے مقصد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کے علاوہ مسجد کے آداب میں سے ہے کہ مسجد میں غیر ضروری باتیں کرنا حرام ہے۔

علامہ حقانی نے اعتکاف کے بارے میں بتا یا کہ جب آپ دنیا کی ساری مصروفیات ترک کرکے محض اللہ کے لیے مسجد میں آ ہی گئے ہیں تو اب دنیا کے کسی دھندے سے سروکار نہ رکھیں، ہر لمحہ خالصتاً اللہ کی طرف متوجہ رہیں۔

 

 

https://www.youtube.com/watch?v=wS9-vY7W8i8

علامہ موسوی نے اعتکاف کی اہمیت اورفضیلت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معتکف کو اپنا زیادہ تر وقت ذکر و تلاوت، نوافل کی ادائیگی اور دینی کتابوں کے مطالعہ میں گزارنا چاہیے۔ اگر کوئی بزرگ یا عالم دین بھی اسی مسجد میں معتکف ہوں تو ان کی صحبت میں جتنا وقت میسر ہو بیٹھ کر ان سے دین کی باتیں سننا اور پوچھنا چاہئیں۔

اصل مسنون اعتکاف تو رمضان امبارک کے آخری عشرے کا ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ غیر رمضان میں بھی آدمی جب مسجد میں جائے تو جتنی دیر مسجد میں رہنے کا ارادہ ہو اتنی دیر کے اعتکاف کی نیت کر لے۔

علامہ موسوی نے اعتکاف کی اہمیت اورفضیلت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعتکاف ماہ رمضان کی بہترین عبادت سمجھا جاتا ہےجس میں انسان دس روز تک ترک دینا کرکے اپنے خالق کی عبادت کرتا ہے۔اعتکاف کی سعادت حاصل کرکے انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا و آخرت میں صرف ایک ہی قوت ہے جو انسان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ انسان اکیلا آیا ہے اور اسے اکیلے ہی اس جہاں فانی سے کوچ کرنا ہے۔

سوائے اللہ کے کوئی رشتہ انسان کے کام نہیں آئے گا لیکن اگر بندے کا اس کے رب کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا تو اسے کسی کی ضرورت نہیں۔

علامہ موسوی نے اعتکاف کی اہمیت اورفضیلت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ماہ رمضان کے آخری عشرے میں 20ویں روزے سے چاند رات تک اعتکاف کرتی ہے جو تنہائی کی عبادت ہے اور بندے کا اپنے رب سے تعلق جوڑتی ہے۔

علامہ موسوی نے اعتکاف کی اہمیت اورفضیلت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین ؓ سے روایت ہے کہ ” جس نے رمضان کے آخری دس دن کا اعتکاف کیا وہ ایسا ہے جس نے دو حج اور دو عمرے کرنے کا ثواب پایا۔”اعتکاف کی تین اقسام ہوتی ہیں جن میں سنت، مستجب اور واجب شامل ہیں۔

علامہ موسوی نے اعتکاف کی اہمیت اورفضیلت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعتکاف سنت میں مسلمان رمضان کے آخری دس دن دینا سے کٹ کر صرف اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس کا ایک خاص مقصد رمضان کی طاق راتوں میں عبادت کرنا بھی ہے۔اعتکاف مستجب کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں یہ کبھی بھی ایک دن یا چند گھنٹوں کے لیے بھی کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر انسان مسجد میں داخل ہو اور اعتکاف کی نیت کرلیں تو تمام عبادت کا ثواب اعتکاف کے برابر ہی ہوگا۔

اعتکاف واجب میں روزہ بھی رکھنا ہوتا ہے اور یہ اس صورت میں کیا جاتا ہے جب انسان نے کوئی منت مان رکھی ہو کہ اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں اعتکاف کروں گا

Shares: