لاہور:انبیا کی زندگی کے واقعات میں ایمان والوں کے لیے نصیحت اورہدایت ہے ،طاق راتوں میں زیادہ سے زیادہ نوافل،قران کی تلاوت کرنی چاہیے،علامہ حقانی ، علامہ موسوی کی گفتگوکا سلسلہ آج 23 ویں رمضان المبارک بھی جاری رہا ہے ، اس اہم گفتگو میں علامہ عبدالشکورحقانی اورعلامہ سید حسنین موسوی نے تئیسویں پارے کے اہم موضوعات کا سرسری خلاصہ پیش کیا اورطاق راتوں کی عبادات کے متعلق بہت خوبصورت پہلو بیان کئے ،

قرآن مجید کے 23 ویں پارے کے اہم موضوعات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پارے میں چار حصے ہیں: سورۂ یٰس (بقیہ حصہ) سورۂ صافات (مکمل) سورۂ ص (مکمل) سورۂ زمر (ابتدائی حصہ) سورۂ یٰس کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں: حبیب نجار کا قصہ (ایک بستی والوں نے اپنے تین انبیاء کو جھٹلایا ، ان کی قوم کا ایک شخص جس کا نام حبیب نجار تھا نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو انھوں نے اسے شہید کردیا ، جنت میں جاکر بھی اس نے تمنا کی کاش! میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ مجھے کیسی نعمتیں ملی ہیں۔)

اللہ کی قدرت کے دلائل (1۔مردہ زمین جسے بارش سے زندہ کردیا جاتا ہے۔ 2۔لیل و نہار اور شمس و قمر کا نظام۔ 3۔کشتیاں اور جہاز جو سمندر میں چلتے ہیں۔) ۳۔ قیامت (محشر کی ہولناکیاں ، صور پھونکے جانے کا تذکرہ ، اس دن مجرموں کے مونہوں پر مہر لگادی جائے گی اور ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے۔) سورۂ صافات میں دو باتیں یہ ہیں: ۱۔ جہنمیوں کا باہم لعن طعن اور جنتیوں کا خوشگوار مکالمہ انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے (حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوتِ توحید ، انھیں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم اور اس کی تعمیل ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا قصہ ، حضرت الیاس علیہ السلام کا قصہ جنھیں شام میں ایک ایسی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا جو "بعل” نامی بت کی عبادت کرتی تھی، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی شہوت پرستی کا قصہ ، حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں ہونے کا قصہ۔)

 

سورۂ ص میں دو باتیں یہ ہیں:​۱۔ توحید (تمام انسانوں اور موت و حیات کے پورے نظام کے لیے ایک اللہ ہی کافی ہے۔) ۲۔ رسالت (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ، قریش کی مذمت ، تسلی کے طور پر حضرت داؤد علیہ السلام کے شکر کا قصہ اور حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کا قصہ اور دیگر انبیائے کرام کے قصے) (۴) سورۂ زمر کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں: ۱۔ قرآن کی عظمت ۲۔ توحید (اللہ تعالیٰ انسان کو ماں کے پیٹ میں تین تاریکیوں میں پیدا فرماتے ہیں۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف اورطاق راتوں کی اہمیت وفضیلت بتاتے ہوئے کہا کہ !

رمضان المبارک بڑابابرکت مہینہ ہے اور اس کے آخری عشرے میں ایک رات ہے جس میں عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔طاق راتوں میں تلاش شب قدر میں جو عبادتیں کررہے ہیں، اللہ انہیں قبول فرمائے اس ماہ مبارک میں مسلمان جتنی پابندی کرتے ہیں وہ بقیہ مہینوں میں بھی اسی طرح پابندرہیں ۔شب قدر عظیم اور فضیلت والی رات ہے اس کے ساتھ ہی یہ تقدیر ساز رات بھی ہے اللہ اس رات تقدیروں کا فیصلہ فرماتا ہے اور اس ایک رات کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہے جتنے بزرگ اور نوجوان طاق رات میں قیام کرتے ہیں اللہ ان کو قبول فرمائے اور مزید مسلمانوں کو اس کی فکر عطا فرمائے ۔

 

اللہ رب العزت نے اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے یہ رات یعنی شب قدر عطا فرمائی ہے جس میں عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے اور جس میں اللہ تقدیروں کا فیصلہ فرماتا ہے اللہ رب العزت کو امت محمدیہ سے بہت محبت ہے اس لئے اللہ نے اس پر کئی احسان اور انعام عطا فرمایا ہے طاق راتوں میں تلاش شب قدر کا اہتمام کرنے والوں کو اللہ قبول فرمائے یہ اہتمام حضور اکرم ﷺ اور حضرات صحابہ اکرامؓ بھی فرماتے تھے اور آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے شب قدر سے جو محروم رہا وہ سال بھر کی برکتوں اور نعمتوں سے محروم رہا۔شب قدر اتنی فضیلت والی رات ہے اوراس فضیلت کو حاصل کرنے اللہ نے بہت آسانی عطا فرمائی ہے ا سکے باوجود شب قدر کی فضیلتوں سے محرومی بدنصیبی ہی ہوگی۔ ہم پورے یقین کے ساتھ صرف ایک رات جاگ کر مان لیتے ہیں کہ ہمیں شب قدر مل گئی ایسا نہیں بلکہ ہمیں طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنا چاہئے۔

اللہ رب العزت نے رمضان المبارک کے مہینہ میں شب قدر جیسی بابرکت و فضیلت والی رات بھی رکھی جو تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت و ثواب کی رات ہے ۔ شب قدر وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔سب سے بڑی فضیلت تو یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کو نازل فرمایا۔اللہ تعالی نے فرما یا ’’ بیشک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا‘‘(سورہ القدر۔۱)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مقدس رات اللہ نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں یہ شرف کسی کو نہیں ملا،گویا یہ عظیم نعمت بھی رسول رحمت ﷺکی غلامی کے صدقہ میں امت کو نصیب ہوئی ہے اور رب کریم کی اپنے محبوبﷺ کی امت پر خصوصی عنایتوں میں سے ایک عظیم عنایت ہے۔

 

یہ عظیم رات بہت ہی خیر و برکت والی ہے اسی رات کو اللہ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں یعنی جو بندہ اس رات میں عبادت کرتا ہے گویا اس نے تراسی برس چار ماہ عبادت کی ۔اور یہ کم سے کم ہے اللہ نے اس رات کو ہزار مہینوں سے بھی افضل قرار دیا ہے یہ مدت کتنی بھی ہوسکتی ہے یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہوا ، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جا تے ہیں اور اس رات میں فرشتے کثیر تعداد میں اترتے ہیں حضرت جبریل ؑ فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ اترتے ہیں اور جس شخص کو عبادت ذکر و غیر ہ میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور بندوں کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ نقل فرماتی ہیں کہ ’’ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو ‘‘ اس رات کو پانے والا ایک ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب پا تاہے ۔

رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے تربیت کامہینہ ہے اللہ رب العزت چاہتا ہے کہ اس کے بندوں میں تقوی پیدا ہو روزوں کی فرضیت کے ساتھ اللہ نے اسکا مقصد بھی یہی بیان کیا ہے کہ روزے تم پر فرض کئے گئے تا کہ تم میں تقوی پیدا ہو لیکن ہم مسلمانوں پر روزہ فرض ہے یہ سمجھ گئے لیکن اس کے مقصد کو بھول گئے نتیجہ جب سے شعور آیا ہے روزہ پابندی سے رکھ رہے ہیں 30,20,10 سال گزرگئے روزہ رکھتے ہوئے لیکن تقوی پیدا نہیں ہوا مقصد سے لاعلمی نے ہمیں اس سے محروم رکھا ہوا ہے ۔ آج علم عام ہے سینکڑوں کتابیں مطالعہ میں ہیں لائبریریاں کم پڑرہی ہیں علم ہر کوئی حاصل کررہا ہے یہ بہت اچھی بات ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عمل کے میدان میں سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ اسلام عمل کی دعوت دیتا ہے لیکن مسلمان عمل کے معاملے میں کوتاہی برت رہا ہے ۔

 

رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے اس ماہ مبارک میں قر آن نازل کیا گیا لیکن مسلمان اس عظیم کلام الہی سے جس کو اللہ رب العزت نے ساری انسانیت کیلئے ہدایت بنا کے نازل فرمایا۔ اس سے غافل ہے ہم خود بھی قرآن کی تلاوت کریں اس کو سمجھیں اس کی تعلیمات پر عمل کریں اپنی اولاد کو بھی قرآن کریم کی تعلیم دیں دورحاضر میں عصری تعلیم کیلئے بے شمار سہولتیں دستیاب ہیں قرآن کریم کی تعلیم کے لئے اس طرح بہترین سہولتیں فراہم کرکے قرآن کو پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے کا اہتمام کریں۔ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ نے فر ما یا تم لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے قرآن کریم کی تلاوت کر نا یقیناًًباعث ثواب ہے لیکن اگر اس کو سمجھا جائے تو اس سے ایک خاص تعلق پیدا ہو گا اور زندگی گذارنے کا صحیح سلیقہ و طریقہ سمجھ میں آجائیگا اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کر نے کی سعاد ت بھی نصیب ہو گی اور وہ کامیاب ہو جائیگا ۔

رمضان المبارک کی قرآن سے خاص نسبت ہے اور قرآن سے جس کی نسبت ہو گئی اس کا درجہ بلند ہو گیا ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآن کو سمجھیں اور اس کے پیغام کو اوروں تک پہنچائیں۔ اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کی ہدایت اور رہبری کے لیے کتاب اللہ اور انبیاء اکرام کو بھیجا ، بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اللہ عز و جل نے انبیاء کو تو معبوث فرمایا لیکن کتاب اللہ کو نہیں بھیجا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ نے صرف کتاب اللہ بھیجا ہو اور نبی کو نہ بھیجا ہو اللہ نے جب سے کائنات کو وجود بخشا ہے یہ دونوں چیزیں دنیا میں بھیجتا رہا ہے ۔

اس ماہ مبارک میں اللہ نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا کر عطا فر ما تا ہے نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70؍درجہ بڑھا کر عطا کر تا ہے اس لئے مسلمان زکوٰۃ رمضان المبارک میں ادا کر تا ہے تاکہ اس کا ثواب 70؍درجہ بڑھا ہو احاصل کر ے ۔انسان کی مو ت کے ساتھ تمام معاملے ختم ہو جاتے ہیں لیکن تین اعمال اسے فائدے پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایک صدقہ جاریہ دوسرا علم نافع اور تیسرا نیک اولاد ۔اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کرو اور جوکچھ تم علم رکھتے ہو دوسروں تک پہنچاؤ اور اسے خرچ کرو کہ وہ طویل وقت تک فائدہ پہنچاتا رہے کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کے ذکر میں مشغول ہے اور جب تک اللہ کا ذکر ہو تا رہے گا کائنات کا نظام باقی رہے گا اس ماہ مبارک میں اللہ کو راضی کر نے کی فکر کریں نماز ہر برے کام سے روکتی ہے اور یہ اللہ کے ذکر کا بہترین ذریعہ ہے ،اللہ رب العزت فرماتا ہے نماز قائم کرو اور اس کا مطلب ہے کہ دن میں پانچ وقت بلاناغہ پابندی سے نماز پڑھیں تبھی اللہ کے حکم نماز قائم کرو کی تعمیل ہوگی لیکن مسلمان آج نماز سے بھی غفلت برت رہا ہے ۔

 

اللہ سے جو بندہ گناہوں پر نادم ہوکر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کر کے سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ اگر بندہ توبہ بھی کرے اور اس کو اپنے گناہوں پر ندامت نہ ہو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا مصمم ارادہ نہ ہو تو اس کا دوبارہ گناہوں کی طرف لوٹنے کا اندیشہ ہے ۔ بہت سارے بندے ایسے بھی ہیں جو پنچ وقتہ نمازی ہیں حاجی بھی ہیں، زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں پھر بھی ان کا احساس ہے کہ ان کی دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔ اس کیلئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگاکہ ہمارے کس عمل کے سبب دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔ جس کے والدین اس سے ناراض ہوں ایسے بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور عصر حاضر میں اکثریت والدین سے نافرمانی کر رہی ہے۔ دوسری وجہہ اگر ہمارا رزق حلال نہیں ہے تو اللہ دعا قبول نہیں کرتا دعا کی قبولیت کیلئے بندہ پہلے تو اللہ سے توبہ کرے اور پھر والدین کو راضی کرے اور رزق حلال کا پابند ہوجائے پھر اسکی دعائیں قبول ہونگی۔ جس بندہ کو ایمان کی قدر ہے اور جس بندہ کے ایمان کی اللہ کے پاس قدر ہے وہی بندے نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں تمام نیک اعمال کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ورنہ کتنے ہی ایسے ہیں جو بلا عذر روزے نہیں رکھتے نماز نہیں پڑھتے ۔

رمضان کا مہینہ آپ سے مجاہدہ چاہتا ہے اس ماہِ مبارک میں بے شمار گھڑیاں قبولیت دعا کی ہیں۔ اس لئے اس ماہ مبارک میں عبادتوں کے ساتھ دعا کا بھی خاص اہتمام کریں ۔ عیدین کی رات بہت اہم ہوتی ہے ان راتوں میں جو بندہ عبادت کرتا ہے روز محشر جب لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے ان کے دل زندہ رہیں گے آج عام ماحول بلکہ معمول مسلمانوں کا یہ بن گیا ہے کہ عید کی رات عبادت کی بجائے بازاروں میں خریدوفروخت اور سیروتفریح میں وقت برباد کرتے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا نہیں ہیکہ انہوں نے رمضان کے پیغام کو سمجھا ہوگا اگر سمجھتے تواپنی مغفرت کی فکر کرتے عید کے معنی خوشی کے ہیں اور اصل خوشی اس کو حاصل ہوتی ہے جس نے رمضان کو پایا او راپنی مغفرت کروالی بلکہ جس نے رمضان کو پایا اور اپنی مغفرت نہ کرواسکا اس کے لئے جبرئیل امین نے ہلاک و برباد ہوجانے کی بددعا فرمائی اور رسول رحمت ﷺ نے اس پر آمین فرمائی ہے تو اس کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ اصل عید اس کی جس نے اس ماہ مبارک میں مغفرت کروالی او رجو اس سے محروم رہا اس کے لئے یہ وعیدبن جائے گی ۔

 

آج مسلمانوں میں رمضان کی عظمت نہیں رہی اس ماہ مبارک میں بھی مسلمانوں کی ہوٹلیں کھلی رہتی ہیں اور مسلمان کھلے عام کھاتے پیتے ہیں حالانکہ اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان گناہ بھی کررہے ہیں او راس پر نڈر بھی ہوگئے ہیں جو بہت خطرناک ہے یہ دراصل اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے بغاوت کے مترادف ہے امت کی غالب اکثریت گناہوں میں مبتلا ہے تو اللہ کی مدد کیسے آئے گی اللہ نے رمضان عطا فرمایا تا کہ ہمارے گناہ ختم کردے ۔ہم سب اس خیر و برکت والی مقدس رات کوطاق راتوں میں تلاش کریں اوراللہ کی رضا وخوشنودی کے حصول میں لگے رہیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہوں اور حسب توفیق ذکر و تلاوت، توبہ و استغفار، درود و نوافل ، تسبیحات اور تہجد وغیرہ میں مصروف رہیں۔اللہ سے خیر و سلامتی ،فضل و کرم اور بخشش و مغفرت کی دعائیں مانگیں اس متبرک رات کے انوار و برکتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور رب العزت کے احسانات اور انعام و اکرام کا شکر ادا کریں۔خلوص دل سے دعا کریں کہ اے اللہ عفو و درگذر تیرا بہت بڑا کرم ہے تو معافی کو پسند فرماتاہے ہم تیرے محتاج ہیں تیری رحمت و عافیت کے طلبگار ہیں تو ہماری مغفرت فرماہمیں بخش دے، بندے اس رات میں دعا کریں اور فرشتے ان کی دعاوءں پر آمین کہیں اور اللہ دعا قبول فرمائے، اس سے راضی ہوجائے ،اس کو بخش دے تو بندہ کامیاب ہے اوریہ خصوصیت صرف شب قدر کو ہی حاصل ہے،رب العالمین ہم سب مسلمانوں کو شب قدر کے فیوض و برکات اور نعمتوں سے فیضیاب فرمائے

Shares: