لاہور:رمضان ٹرانسمشن کے دوران آج علامہ عبد الشکورحقانی اورعلامہ سید حسنین موسوی نے 12 ویں پارے کے اہم واقعات بیان کئے ، علامہ عبدالشکورحقانی نے اس پارے کے آغازمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی مخلوق کی ذمہ داری کے حوالےسےکہا کہ ابتداء میں تمام مخلوقات کی معیشت کا مسئلہ حل کرتے ہوئے اعلان کیا زمین پر چلنے والے تمام جانوروں کی روزی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عارضی اورمستقل قیام گاہ کو جانتا ہے

اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کا ذکر کیا‘ جواپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ حضرت نوح کی قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی نوح نے اپنی قوم کو شرک سے باز رہنے کی تلقین کی ‘مگر انہوں نے جناب نوح ں کا شدید مذاق اڑایا ۔اللہ تعالیٰ نے جناب نوح کی مدد فرمائی۔آسمان اور زمین سے بارش اور سیلاب کی شکل میں پانی جاری کردیا ‘جس کی زد میں جناب نوح کے بیٹے اور نافرمان بیوی سمیت تمام کافر آگئے ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا ذکر کیا کہ قوم ِعاد بھی قوم ِنوح کی طرح شرک کی بیماری میں مبتلا تھی۔ جناب ہود اُن کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے‘ لیکن انہوں نے جناب ہود کی ایک نہ سنی۔ قوم عاد کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طاقتور طوفانی ہوا کو ان پر مسلّط کر دیا‘ جس نے قوم ہود کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی طاقت پر ناز کرنے والے زمین پر یوں پڑے تھے ‘جس طرح کٹے ہوئے درخت کی شاخیں ہوتی ہیں ۔قوم ِعاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کا ذکر کیا ۔

علامہ حقانی نے کہا کہ مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا انہوں نے بھی توحید کا پیغام دیا اور یہ بھی نصیحت کی کہ ناپ تول میں کمی مت کیا کرو، میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ تم پر ایک ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا، قوم نے کہا کہ اے شعیبؑ آپ کی بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک کمزور آدمی ہیں۔اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا، وہ اپنی بستیوں میں اوندھے منہ پڑے کے پڑے رہ گئے جیسے وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ہے جو گزشتہ پاروں میں بھی مختلف طریقوں سے آچکا ہے۔ اس سورہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان قصوں کے بیان کرنے کی حکمت بھی ارشاد فرمائی کہ پیغمبروں کے یہ قصے جو ہم آپ کو سناتے ہیں ان سے ہم آپ کے دل کو مضبوط کرتے ہیں، ان سے آپ کو حقیقت کا علم اور اہل ایمان کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوتی ہے۔

سورۂ ہود ختم ہوئی۔ سورہ یوسف کا آغاز ہوا، اس سورہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی سبق آموز داستان بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ سورہ کے آغاز میں فرمایا کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں، ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ لو، اور ہم اس قرآن کے ذریعے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں۔ اس سے پہلے آپ اس واقعے سے بالکل بے خبر تھے۔ اس کے بعد قصہ شروع ہوتا ہے کہ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ ابا جان میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاندہے یہ سب مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بتانا ورنہ وہ تمہارے خلاف سازش کریں گے۔

 

 

https://www.youtube.com/watch?v=k7OWmclpSnA

ان بھائیوں نے آپس میں یہ کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کے زیادہ چہیتے ہیں حالاں کہ ہم پورا گروہ ہیں۔ حقیقی بات یہ ہے کہ ہمارے والد بہک گئے ہیں، چلو یوسف کو قتل کردیں یا اس کو کسی (دور افتادہ) جگہ پھینک آئیں اس طرح والد کی پوری توجہ ہماری طرف ہوجائے گی، اس کے بعد پھر نیک بن جانا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو، بلکہ اس کو کسی اندھے کنویں میں ڈال دو شاید کوئی قافلہ اسے اٹھالے۔ (تجویز کے مطابق ایک روز یہ سب والد کی خدمت میں حاضر ہوئے) اور عرض کیا کہ ابا جان آپ یوسف کے سلسلے میں ہم پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے جب کہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں، آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کچھ گھومے پھرے گا ، کھیلے کودے گا، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ ابا جان نے کہا مجھے اس کا تمہارے ساتھ جانا گراں گزرتا ہے اور مجھے یہ ڈر رہتا ہے کہ کہیں تمہاری غفلت کی وجہ سے اس کو بھیڑیا نہ کھالے۔

انہوں نے کہاکہ اگر ہمارے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیئے نے کھا لیا تب تو ہم بالکل ہی خسارے میں ہیں۔ اس طرح وہ لوگ یوسف کو لے گئے اور اس پر متفق ہوگئے کہ اس کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں۔ ہم نے یوسفؑ کو بذریعہ وحی مطلع کیا کہ ایک وقت آئے گا کہ تم اپنے بھائیوںکو ان حالات سے باخبر کرو گے۔ رات کو یہ لوگ روتے پیٹتے والد کے پاس آئے اور کہنے لگے ابا جان ہم آپس میں دوڑ لگا رہے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اسے بھیڑیئے نے کھا لیا، آپ ہمارا یقین تو کریں گے نہیں خواہ ہم سچے ہی کیوں نہ ہوں۔

وہ لوگ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون بھی لگا کر لائے تھے، والد نے کہا کہ تم نے اپنے دل سے ایک بات گھڑ لی ہے سو میں صبر کروں گا۔ ادھر ایک قافلہ آ نکلا، اس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لئے بھیجا، سقے نے کنویں میں ڈول ڈالا تو پکار اٹھا کہ مبارک ہو یہاں تو ایک غلام ہے۔ انہوں نے مال کی طرح ان کو چھپا لیا اور چند درہموں میں ان کو فروخت کرڈالا۔ جس شخص نے مصر میں ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح رکھنا، ممکن ہے یہ ہمارے کام آئے یاہم اسے بیٹا بنالیں۔ جب وہ جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا۔ جس عورت کے گھر میں یوسف تھے وہ ان کو ورغلانے لگی،

ایک دن دروازے بند کرکے کہنے لگی آجاؤ، یوسف نے کہا خدا کی پناہ !میرے آقا نے مجھے اچھا ٹھکانہ دیا، آخر کا ر وہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے پیچھے سے ان کا کرتا پھاڑ دیا، دونوں نے عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت بولی ایسے آدمی کی کیا سزا ہے جو تیری بیوی پر نیت خراب کرے۔ عورت کے خاندان والوں میں سے ایک نے گواہی دی کہ اگر کرتا آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹے ہیں اورپیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی ہے یہ سچے ہیں، جب شوہر نے دیکھا کہ کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو کہنے لگا یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، مگر اس عورت نے پیچھا نہ چھوڑا اورانہیں جیل خانے میں ڈلوادیا ، جیل خانے میں یوسف کے ساتھ دو غلام اور بھی داخل ہوئے،

انہوں نے خواب دیکھے اور حضرت یوسفؑ سے ان کی تعبیر پوچھی اور وہ سچ نکلی، ان میں سے ایک سے حضرت یوسفؑ نے کہا تھا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا مگر وہ بھول گیا۔ اس کے بعد شاہ مصر نے خواب دیکھا اور درباریوں سے تعبیر معلوم کی، وہ غلام وہاں موجود تھا، اس نے جیل خانے جاکر یوسفؑ سے تعبیر معلوم کی انہوں نے بتلادی، شاہ مصر کو معلوم ہوا کہ یہ تعبیر فلاں شخص نے بتلائی ہے جو جیل میں بند ہے۔ حضرت یوسفؑ کو بلایا گیا، آپ نے آنے والے سے کہا کہ پہلے اپنے آقا سے کہو کہ ان عورتوں سے معلو م کرو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ بادشاہ نے عورتوں سے دریافت کیا، سب نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام جیل خانے سے باہر نکلے اورپھروزیرخزانہ بنے اورتھوڑے ہی عرصے کے بعد مصر کے تخت کے وارث بن گئے

علامہ سید حسنین موسوی نے 12 پارے کے اہم واقعت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں‌ اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ ہود مکمل (اس کی ابتدائی پانچ آیات گیارھویں پارے میں ہیں)
۲۔ سورۂ یوسف کا ابتدائی حصہ

(۱) سورۂ ہود میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآنِ کریم کی عظمت
۲۔ توحید اور دلائل توحید
۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات
۴۔ قیامت کا تذکرہ

۱۔ قرآن کی عظمت:
(۱) قرآن اپنی آیات، معانی اور مضامین کے اعتبار سے محکم کتاب ہے اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد اور خلل نہیں آسکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض یا تناقض پایا جاتا ہے، اس کے محکم ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تفصیل اور تشریح اس ذات نے کی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے، اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہے اور اسے انسان کے ماضی ، حال ، مستقبل ، اس کی نفسیات ، کمزوریوں اور ضروریات کا بخوبی علم ہے۔
(۲)منکرین قرآن کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔

۲۔ توحید اور دلائل توحید:
ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات ، چوپائے ہوں یا پرندے، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، آسمان اور زمین کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔

۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات:
(۱)حضرت نوح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم ایمان نہیں لائی سوائے چند، انھوں نے اللہ کے حکم سے کشتی بنائی، ایمان والے محفوظ رہے، باقی سب غرق ہوگئے۔
(۲)حضرت ہود علیہ السلام۔۔ ان کی قوم میں سے جو ایمان لے آئے وہ کامیاب ہوئے باقی سب پر (باد صرصر کی صورت میں) اللہ کا عذاب آیا۔
(۳)حضرت صالح علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، مگر قوم نے اسے مار ڈالا، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔
(۴)حضرت ابراہیم علیہ السلام۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اللہ نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا اسحاق علیہ السلام عطا فرمایا پھر ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام ہوئے۔
(۵)حضرت لوط علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، کچھ فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے، ان کی قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔
(٦)حضرت شعیب علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔
(۷)حضرت موسی علیہ السلام۔۔ فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔

ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے نہ ختم ہونے والی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے، بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔٣۔ قیامت کا تذکرہ:

Shares: