عالمی ترقی،برصغیرکا ذہنی اخلاقی زوال کا باعث تحریر : عظیم بٹ

0
49

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کراہ ارض پر جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی جدت نے انسانوں کو قریب لانے کا بیڑا اٹھایا تو قریبا پچھلے دو ہزار سالوں میں انسانی رویوں میں بے تحاشہ تبدیلیاں واقع ہوئیں۔یہ تبدیلیاں اکثریت میں مثبت تھیں جن میں انسان کو دوسرے انسان کے لئے سہولیات پیدا کرنے کا اداراک ہوا۔انسان کے احساس اور حقوق نامی جذبات کی بنیاد پڑی۔ہم نے دیکھا کہ جیسے کوئی معاشرہ ترقی کرتا گیاوہاں لوگوں کے مابین اخلاقیات کی سطح میں اضافہ ہوا۔

اگر ہم دنیا پر پچھلے کئی ہزار سالوں سے اپنا اثر رکھنے والی طاقتوں کا بغور مشاہدہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ امریکہ اور یورپ دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار قرار دئیے گئے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے انسانی حقوق کو اپنی بنیادی ضروریات کی طرح اپنے رسم و رواج میں شامل کیا حالانکہ اس کے برعکس وہاں ٹیکنالوجی نے بھی دنیا میں ایک انڈسٹریل انقلاب کی بنیاد رکھی جس سے ان کے رہن سہن میں تبدیلی اور دنیا پر اثر انداز ہونے کے معاملات آگے بڑھے مگر ان کی انسانی حقوق کی روش نے ان کے اس طاقت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور دنیا ان کے ساتھ جڑنے لگی۔

جہاں دنیا نئے رسم و رواج کو اپنا کر اپنے وحشی پن اور جنگ و جدل کے معاملات کو مدفون کرنے میں مصروف رہی وہاں برصغیر میں احساس کمتری کے بڑھتے رجحان نے ان کو اخلاقی پستی کی طرف ایسا دھکیلا کہ اب تک اس کے بدبو دار سحر سے یہ خطہ نہیں نکل پا رہا۔برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے قبل قریبا 3سو سال پہلے ہندو ، مسلم،عیسائی،پارسی سمیت کئی مذاہب کا مجموعہ اس خطے میں ایک خوبصورت باغیچے کی سی صورت پیش کرتا تھا اور اس وقت یہ تمام قومیں اور افراد مل کر خود پر مسلاط مختلف ظالموں سے جان چھڑوانے کے لئے اتفاق میں برکت کو ترجیح دیتے تھے ۔برصغیر میں ظلم کا معیار کسی مذہب سے جڑا نا تھا بلکہ سادہ سا کلیا یہ تھا کہ جو ظالم ہے وہ ظالم ہے ۔مذاہب انسان کے اعتقاد کا معاملہ ہے جو کہ نجی ہےاس پر مشتمل معاشرہ اور یکجا قوم برصغیر میں قیام پذیر تھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے بر صغیر میں آنے کے بعد سے برطانوی راج کے عروج پر ہونے تک برصغیر کی روایت یہی تھی کہ ظالم انگریز ہے نا کہ عیسائی اور برصغیر کے عیسائی افراد ہندو،مسلم،پارسی،جین،بنگال افراد مل کر اس کو یہاں سے نکالنے اور آزادی کی بات کرتے رہے۔جب وقت کا پہیہ گھوما اور مشترکہ محنت سے عوام میں ایک آگ پیدا ہوئی اور انگریز کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آیا تو اس نے اپنی دوسری شاطرانہ چال کو برصغیر پر یوں پھینکا کہ باغیچہ بکھر کر کلیاں اور کلیاں بکھر کر کانٹوں کا منظر پیش کرنا شروع ہوئیں جو آج تک قائم ہے۔

انگریز نے اپنی ٹیکنالوجی جس کو اس نے اپنے قابل دماغ سے دنیا میں متعرف کروایا تھا اسی دماغ سے اس نے برصغیر میں اپنا پرانا طریقہ واردات "ڈیوائڈ اینڈ رول” کا استعمال کیا اور نفرت کا بیج جو کہ کئی سالوں سے یہاں نا بویا جا سکا تھا وہ کاشت کیا اس کی بنیادی مثال یہ بھی ہے کہ تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ سنہ 1800 سے قبل یعنی تقریبا ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے قبل برصغیر میں کوئی ہندو ، مسلم ، عیسائی تنازعہ اس سطح کا ہو کہ سب کا ساتھ رہنا کسی دوسرے کے لئے مشکلات کا سبب بنے۔

انگریز یہاں سے جانا تو پڑ رہا تھا مگر وہ برصغیر کو ایک ایسی کشمکس میں دھکیل کر جانا چاہتا تھا جس سے انگریز کے بھاگنے کا داغ بھی دھل جائے اور برصغیر کی عوام اگلے کئی سو سالوں تک اسی کشکش میں مبتلا رہے کہ آیا اصل دشمن انگریز تھا یا ہندواور مسلمانوں کے مابین اعتقاد کا اختلاف۔ابھی حال ہی میں افغانستان سے انخلاء کے وقت امریکہ نے بھی برطانیہ جیسی چال کھیلنے کی کوشش تو کی مگر آج کے جدت بھرے دور میں جہاں میڈیا موجود ہو اور معلومات کی منتقلی کا عمل چند سیکنڈ پر کھڑا ہو یہ ممکن نا ہو سکا کہ پنجشیر میں احمد شاہ مسعود اور طالبان کے مابین لڑائی کروا کہ افغانستان کو خانہ جنگی کا شکار کیا جائے۔

برصغیر کی عوام انگریز کے گولی بارود والی ہتھیار سے تو کامیاب ہو گئی مگر اس طریقہ واردات کے نرگے میں جو آئی تو آج تک نکل نا سکی۔اس وقت پھر مذاہب کا پہیہ گھوما اور سیاست اور حکومت کا معیار اب برصغیر میں مذاہب کے نام پر چلنے لگا۔اس وقت برصغیر میں ہندو مسلمان کے مابین دو قومی نظریہ ایک حالات کی ضرورت بن چکا تھا جس میں مسلمانوں کا اپنے لئے علیحدہ ملک کا مطالبہ سامنے آیا اور پھر اس کے لئے قابل قدر خدمات دیکھنے میں آئیں ۔البتہ ہندوستان کے بانی مہاتما گاندگی اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح صاحب انگریز کو برصغیر سے بھانے میں تو کامیاب رہےمگر اپنے درمیان ایسی خلش تھی کہ اپنی تقسیم کا فیصلہ اس دشمن سے کروانے کو راضی ہو گئے جس کوکئی سالوں کی جدوجہد کے بعد اپنی سرزمین سے بھگا رہے تھے۔

حالات کا پہیہ جس طرف کو گھوما برصغیرکے افراد نے دونوں جانب ہندوستان اور پاکستان نے اس سے مزاحمت کا کبھی سوچا ہی نہیں اور یہ نفرت کا بیج 70 سال میں اب اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ غالبا گمان ہوتا ہے کہ اس نفرت سے باہر نا نکلنا ہی ہماری بقاء ہے۔ہندوستان نے تو اس پہیہ کو اس رفتار سے گھمایا ہے کہ وہاں انہوں نے مسلمانوں سے نفرت تو ایک طرف اپنے ہی اعتقاد والے چھوٹی ذات کے لوگوں جن کو وہ دلت کہہ کر دھتکارتے ہیں ان کو بھی نا بخشا،ہمالیہ،تامل ناڈو،آسام،اور پھر سکھ حضرات تک کو نا پخشا بلکہ ہندوتوا کا نظریہ کی چکی کو ایسا گھمایاکے لاشیں اورخون بھی ان کی انسانیت کی روح کو دوبارہ زندہ نا کر سکا۔

وہیں پاکستان 70 سالوں اس سوچ سے باہر نہیں نکل پا رہا کہ ہمارا پڑوسی ایک دشمن ہے ظالم ہے اور ہمارے بقاء کا مخالف ہے حالانکہ یہ بات کسی حد تک بھارت نے بارڈر پر کھڑے جوانوں سمیت پاکستان کی سلامتی پر کئی بار حملے کر کے ثابت بھی کیا ہے کہ بھارت میں خاص کر اب گزشتہ 10 سالوں میں جس رجحان کا اضافہ ہوا ہے وہ خالصتا ان کے مذہبی عقائد کی بنا پر ہندوتوا کے نظریے کا پرچار ہے چاہے اس کے لئے پورا خطہ جنگ اور خون میں کیوں نا بہہ جائے اگر یوں کہا جائے تو غلط نہیں کہ بھارت اب مہاتما گاندھی کے نظریہ امن بھائی چارہ عدم تشدد کا ملک نہیں بلکہ آر ایس آیس، شیو سینا، ناتھو رام گوڈسے کے نظریے کا ملک ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ وہیں پاکستان سے متعلق بھی اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ 70 کی دہائی سے قبل کا پاکستان اور اب کا پاکستان مکمل طور پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں نا صرف مذہبی جنونیت بلکہ ہر طرح کے شعبے اور سوچ کا یہاں متشدد پن پایا جاتا ہے اس میں وہ روشن خیال افراد بھی شامل ہیں جو خود کو عدم تشدد کا نام لے کر منظر عام پر آتے ہیں مگر ذہنی اور اخلاقی پستی کا شکار ہیں کسی کے مخالف نظریات و عقائد کا پاس نہیں رکھتے۔

اس حوالے سے شاعر کا شعر اس تناظر میں مکمل درست عکس بندی کرتا ہے کہ

دیکھتا کیا ہے میر منہ کی طرف

قائد اعظم کا پاکستان دیکھ

سنہ 71 کے بعد پاکستان کےحالات اور سوچ میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ بنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا بھی تھا جس نے پاکستان میں اپنی بقاء کے لئے اس حادثے کے مقابلے مزید مضبوط ہونے کے نام پر اوپر بیان کئے پہیہ کو تیزی سے گھمایا اور اب تک گھما رہے ہیں۔ابھی حال ہی میں پاکستان کے ایک سائنٹسٹ ڈاکٹر ہودبائی نے صحافی نجم الحسن باجوہ کو انٹرویو دیتے ہوئے دو قومی نظریے کے سوال پر ایک عقلی دلیل داگی تھی کہ دو قومی نظریہ تو سنہ 71 میں خراب تب ہو گیا جب تیسری قوم بنگلہ نے ہم سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ان کی یہ دلیل کتنی درست ہے کون مانتا ہے کون نہیں یہ پڑھنے والوں کی اپنی سوچ پر مبنی ہے مگر تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ جہاں دنیا نے ترقی کی منازل طےکئیں اور دنیا اور نئے رسم و رواج اور اصولوں پر چلی برصغیر مکمل طور پر عدم برداشت اور اخلاقی پستی کا شکار ہوا ہے اب اس کی وجہ برصغیر کے لوگوں کی کم عقلی کہیں یا بیرون ممالک کی سازش یہ سوچ آپ کے اطمئان قلب پر منحصر ہے۔ بلکل ایسے ہی جیسے غالب کہتے ہیں کہ ‘دل پہلانے کو یہ خیال اچھا ہے غالب’

Find out more Opinion on Twitter 

@_azeembutt 

Leave a reply