عالمی یوم خواتین اور مسلم خواتین کے حقوق ، تحریر:شعیب بھٹی

0
47

عالمی یوم خواتین اور مسلم خواتین کے حقوق تحریر:شعیب بھٹی
ہر سال 8مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن خواتین کی آزادی،تعیلم و تربیت، جنسی و جسمانی تشدد سے آگاہی اور ان کے خلاف قانون سازی پہ زور دیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز اس دن سیمینارز کا انعقاد کرتی ہیں۔خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز در حقیقت عورت کی آزادی کے نام پر اس کا استحصال کررہی ہیں اور انہیں معاشرے میں چلتا پھرتا اشتہار بناکر مغربی ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہیں۔ لیکن افسوس عالمی امن کے دعویدار، خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنےوالی عالمی تنظیمیں اور این جی اوز مسلم خواتین کے حقوق پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔ ان این جی اوز نے کھبی بھی کشمیر،برما،فلسطین،شام،عراق،افغانستان میں مسلم خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ یورپ کے اکثر ممالک میں بھی مسلم خواتین کی مذہبی آزادی پر پابندیاں عاٸد ہیں۔ آج کے نام نہاد خواتین مارچ کرنے والے عورت کو فحاشی،عریانی،مادہ پرستی اور خدا بیزاری کا لباس پہنانا چاہتے ہیں۔
عالمی امن کے ٹھیکدار UNO امریکی اور اسرائيلی لونڈی بن کر خاموش ہیں۔
سیکولر کھلانے کی دعویدار ریاست بھارت میں مسلم خواتین پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی مظالم سے کشمیر میں 1989 سے اب تک 905,22 خواتین بیوہ ہوٸیں۔ ایک ہزار سے زاٸد خواتین سمیت 1لاکھ افراد کو شہید کیا گیا۔ انڈین آرمی کشمیری خواتین کے خلاف ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ کشمیری خواتین دنیا بد ترین بے حرمتی کا شکار ہوٸیں۔ ایک اندازے کے مطابق %9فیصد خواتین کا جنسی استحصال کیا گیا۔ اب تک 140,11 خواتین کی عصمت دری کی گٸی۔ ان میں 1991 میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی کنن پوش پورہ کی 100 خواتین بھی شامل ہیں۔ ہیومین راٸٹس واچ کے مطابق خواتین کی تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
کشمیر میں گمنام قبریں بھی دریافت ہوٸی ہیں جن میں اغواہ کے بعد زیادتی اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین اور مرد شامل ہیں۔ پچھلے 6 ماہ سے تمام کشمیری محصور ہیں انکے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی عاٸد ہے۔ نوجوانوں کو گرفتاری کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے رات کے اندھیرے میں گھروں میں تلاشی کے نام پر عورتوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔
لیکن خواتین کے حقوق کی علمبردار این جی اوز کے منہ پہ تالے لگے ہوۓ ہیں۔
برما میں برمی فوج کی طرف سے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور 94,000 خواتین کی عصمت دری کے بعد ان کو زندہ جلایا گیا ۔
مہاجرین کے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم کے ڈاٸریکٹر جنرل ولیم لیسی سوینگ نے دعوی کیا ہے کہ برمی مسلم خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری میں میانمار کی فوج قصوروار ہے۔
فرانس،ہالینڈ،بیلجٸیم،سوٸٹزر لینڈ،آسڑیا،جرمنی،ڈنمارک،ناورے،اسپین اور روس میں مسلم خواتین کے برقعہ اوڑھنے پر پابندی عاٸد کرکے مسلم عورتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ان ممالک میں اب تک جس تہذیب و تمدن کو مادہ پرستی اور دین بیزاری کے لباس میں پیش کیا جاتا رہا ہے آج وہ تہذیب دیمک زدہ لکڑی کی تصویر پیش کررہی ہے۔
اسلام کی حقانیت اور مقبولت سے پریشان یہ ممالک اب مسلم خواتین کو بے پردہ کرکے اور ان کے حقوق چھین کر ان صابر و شاکر عورتوں کو خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں۔
ڈنمارک میں 28 سالہ خاتون کو برقعہ اوڑھنے پر 1ہزار کروز جرمانہ کیا گیا۔
فرانس میں 2010 میں پردہ کرنے پہ پابندی عاٸد کی گٸی اور 1000 ڈالر جرمانہ رکھا گیا۔ فرانس میں صرف 1900 خواتین برقعہ اوڑھتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک کس حد تک اسلام فوبیا کا شکار ہیں۔
2013 میں پیرس میں ٹراپس کے علاقے میں سندرا بیلن کو برقعہ اڑوھنے پہ 200 ڈالر جرمانہ اور پولیس سے ہاتھا پاٸی پر ایک ماہ قید کی سزا دی گٸی۔ سندرا بیلن نے پولیس سے ہاتھا پاٸی اس وقت کی جب پولیس نے زبردستی اس کو بے پردہ کیا۔
ہالینڈ میں کل آبادی سترہ ملین ہے اور وہاں مقیم مسلمانوں کی تعداد 1 ملین ہے۔ ہالینڈ میں بھی اتنی بڑی مسلم تعداد کے حقوق کو چھینا گیا۔ برقعہ اوڑھنے پہ پابندی لگاٸی گٸی 150 یورو جرمانے کا قانون بنایا گیا اور اگر کوٸی عالم دین پردہ کی تبلیغ کرے گا تو اسے 30,000 یورو جرمانہ کیا جاۓ گا۔
ان سب ممالک میں مسلم خواتین سختیاں،تکلیفیں،نظر بندیاں اور جرمانے ادا کرکے بھی پردہ کو اپنا شعار بناۓ ہوۓ ہیں۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے خواتین کو حقیقی آزادی دی۔ خواتین کو تکریم اور عزت سے نوازا۔ پردہ جوکہ عورت کے لیے عزت وقار اور تکریم کی علامت ہے اس کو ان ممالک نے جبر قرار دیا۔ حالانکہ پردہ گندی نظروں،حرس و ہوس زدہ نگاہوں کے حصار سے محفوظ رکھتا ہے۔
ایک عیساٸی بلاگ راٸٹر ناومی والف اپنے ایک آرٹیکل جس کا عنوان "خواتین،پردہ،جنس” تھا۔
میں پردے کےحوالے سے لکھتی ہیں کہ یہ "پبلک بمقابلہ پراٸیوٹ” کا معاملہ ہے۔
یہ سب تعصب پسند ممالک اسلاموفوبیا کا شکار ہیں اور اسلام کی مقبولیت سے پریشان ہیں ایک سروے کے مطابق امریکہ میں سالانہ 20,000 افراد داٸرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔
عورت کے حقوق کی علمبردار تنظیموں،این جی اوز کی تعصب بازی ان سب باتوں سے عیاں ہے۔ یہ تنظیمیں اور این جی اوز غیرملکی فنڈنگ پر اُن کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کررہی ہیں۔
مساوی طریقے سے عورتوں کے حقوق کی نماٸندگی کی جاتی تو آج مسلم عورتوں پر مذہبی پابندیاں ہر گز عاٸد نا کی جاتیں۔غیر ملکی ایجنڈوں کو پھیلانا اور عورتوں کو معاشرے کی اقدار سے باغی کرنا،مادہ پرستی، خدا بیزاری کو پروموٹ کرنا ان تنظیموں اور این جی اوز کے بنیادی مقاصد ہیں۔
جب تک باشعور لوگ موجود ہیں ان ایجنڈوں کی تکیمل میں روکاٹ بننتے رہیں گے۔
اپنی نظریات،تہذیب و تمدن کو نشانہ بننے سے بچاتے رہیں گے اور عورتوں کے حقیقی مساٸل کو اجاگر کریں گے خواہ وہ کسی مذہب،معاشرے یا طبقے سے تعلق رکھتی ہو۔

Leave a reply