وفاقی وزارت داخلہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل میں ملوث اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔
وزارت داخلہ نے نیب کی سفارش پر چار اہم ملزمان کے پاسپورٹس منسوخ کر دیے ہیں۔ ان ملزمان میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض، ان کے بیٹے علی ریاض، سابق وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور فرح شہزادی ،فرح گوگی شامل ہیں۔ڈان نیوز کے مطابق، وزارتِ داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی درخواست پر 28 جنوری کو ان ملزمان کے پاسپورٹس منسوخ کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ کو خط لکھا گیا تھا۔ وزارتِ داخلہ نے فوری طور پر ان اشتہاری ملزمان کے پاسپورٹس کو منسوخ کر دیا ہے، جن کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل میں تحقیقات جاری ہیں۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل نیب نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض ملک کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان واپس لانے کے لیے کارروائی شروع کر دی تھی۔ نیب حکام نے متحدہ عرب امارات کے حکام سے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کی حوالگی کے لیے رابطہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ان دونوں افراد کو بین الاقوامی انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور ویانا کنونشن کے تحت متحدہ عرب امارات سے ملک بدر کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
نیب کے ذرائع نے پی ٹی آئی کے اس موقف کو رد کیا ہے کہ برطانوی حکام نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض پر 190 ملین پاؤنڈ کے اسکینڈل میں کرپشن کا الزام نہیں لگایا تھا۔ نیب کے مطابق، نومبر 2021 میں برطانیہ کی رائل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے بحریہ ٹاؤن کے معاملات میں کرپشن اور مالی بدانتظامی میں ملوث رہے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن، جو ملک ریاض اور ان کے خاندان کی زیر ملکیت اور زیر انتظام ہے، ایشیا کی سب سے بڑی پراپرٹی ڈویلپر کمپنی سمجھی جاتی ہے۔اس اسکینڈل کی تحقیقات جاری ہیں اور نیب کی جانب سے مزید کارروائیاں متوقع ہیں، تاکہ اس معاملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
القادر ٹرسٹ کیس کا پس منظر
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ پر الزام ہے کہ انہوں نے 2018 سے 2022 کے دوران اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران ملک ریاض سے رشوت کے طور پر زمین حاصل کی اور اس کے بدلے میں غیر قانونی فوائد حاصل کیے۔ اس مقدمے میں عمران خان کا موقف ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ صرف اس زمین کے ٹرسٹی تھے اور انہیں اس لین دین سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوا۔
ملک ریاض نے اس مقدمے میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے انکار کیا ہے۔ اس کیس کے حوالے سے مزید اہم تفصیلات یہ ہیں کہ 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے اعلان کیا تھا کہ ملک ریاض نے 190 ملین پاؤنڈ حکومت پاکستان کو واپس کرنے پر اتفاق کیا تھا، جو برطانیہ میں منجمد کیے گئے تھے اور یہ رقم غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی تھی۔ پاکستان میں ملک ریاض اور عمران خان کے درمیان اس کیس کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کو پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے ملک ریاض پر عائد غیر قانونی جرمانے کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا۔ ان جرمانوں کا تعلق کراچی میں زمینوں کی خریداری سے تھا، جو کم قیمتوں پر حاصل کی گئی تھیں۔اس کیس میں ملک ریاض اور عمران خان دونوں ہی اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی نہیں ہوئی۔ تاہم، نیب اور دیگر اداروں کی تحقیقات جاری ہیں اور ملک ریاض کی حوالگی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔کیس میں عمران، بشریٰ کو سزا ہو چکی ہے اور وہ اڈیالہ جیل میں ہیں، دونوں نےسزا کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل بھی دائر کر رکھی ہے
جیل میں قید”مرشد”،ملک ریاض کی پارسائی،حقیقت یا فریب؟.تجزیہ:شہزاد قریشی
اب ریاست سے ملک ریاض کا گریبان کوئی نہیں چھڑا سکتا۔خواجہ آصف
صحافت اس وقت ملک ریاض کے ہاتھوں یرغمال بن چکی،خواجہ آصف
30 سال کے راز ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں، گواہی نہیں دوں گا،ملک ریاض
30 سال کے راز ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں، گواہی نہیں دوں گا،ملک ریاض
ملک ریاض کا دبئی میں بحریہ ٹاؤن کے ہیڈ آفس کا افتتاح
عمران،بشریٰ نے ملک ریاض سے غیر قانونی مالی فوائد حاصل کئے
ملک ریاض اور انکے بیٹے علی ریاض ملک کے اثاثے اور بنک اکاؤنٹس منجمد