سن 1936ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبدالقدیر خان رکھا گیا۔ کون جانتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر سانئس دان بنے گا۔ ایک ایسا سانئس دان جو پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھوپال سے تھا۔ مگر سن 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب پاکستان وجود میں آیا تو ان کا پورا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان میں آکر آباد ہوگیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی ابتدائی تعلیم پاکستان سے حاصل کی اور سن 1960ء میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری لینے کے بعد وہ مزید علم کے حصول کی خاطر جرمن کے دارالحکومت برلن چکے گئے۔ کافی عرصہ وہاں قیام پذیر رہے اور پھر اسی عرصے کے دوران انھوں نے محسوس کیا کہ پاکستان کو بھارت کی جانب سے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔
پھر 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو جن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک کو ان درپیش مسائل سے نکالنے اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی تھان لی۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے 1974 میں ذولفقار علی بھٹو کو ایک پیغام بھجوایا کہ وہ جوہری قوت کے حصول اور پاکستان کو ایک مضبوط ایٹمی قوت بنانے کے لیے بھرپور مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
پھر اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1976 کو مستقل طور پر اپنی اہلیہ ہنی خان اور دو بیٹیوں کے ہمراہ پاکستان منتقل ہوگئے۔ کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کے لیے ان کے وطن کو ان کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ یہ کام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا۔ یہ وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہی تو تھا کہ جس کی بدولت آپ ہالینڈ میں اپنی اچھی خاصی نوکری چھوڑ کر پاکستان واپس چلے آئے۔
اس اہم فیصلے میں ان کی اہلیہ ہنی خان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اندر پاکستان کے لیے عشق کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے ساتھ ہی پاکستان آگئیں۔ وطن واپس آتے ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 1976 کے وسط میں ای آر ایل یعنی کہ "انجنیرنگ ریسرچ لیبارٹری” کی بنیاد رکھی۔ بعد میں 1981 کو اس لیبارٹری کا نام "خان ریسرچ لیبارٹری” رکھ دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک کو جوہری طاقت بنانے کے لیے انتھک محنت کرتے ہوئے اپنی گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔
اور پھر 28 مئ 1998 کا وہ تاریخی دن تو سب کو یاد ہی ہوگا جب بھارت کے ایٹمی دھماکے کے جواب کے طور پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں چاغی کے مقام پر کامیاب ترین ایٹمی تجربہ کرتے ہوئے بھارت سمیت پوری دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تو وہ ہستی ہیں جن کی بدولت آج ہم اپنے ملک میں بغیر کسی خوف و خطر کے کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
آج اگر بھارت ہمیں جنگ کی دھمکی دیتا ہے تو ہمارے چہروں پر خوف کا سایہ نہیں لہراتا بلکہ ہم پر سکون ہوکر انھیں جواب دیتے ہیں۔ وہ شخص وہ "محسن پاکستان” جس کی بدولت آج پاکستان بھارت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوجاتا ہے اب سے کچھ گھنٹے قبل شدید علالت کے بعد رحلت فرما گیا ہے۔ یاں یوں کہوں تو کچھ غلط نا ہوگا کہ اب سے کچھ گھنٹے قبل پاکستان نے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ کھو دیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر جہاں پوری قوم اشکبار ہے وہیں آج پاکستان کے اتنے بڑے نقصان پر قومی پرچم کو بھی سرنگوں کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود تو اس دنیا سے چلے گئے پر ان کا نام اور ان کا کام رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ الوداع "محسن پاکستان” الوداع
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انھیں گلیوں کی ہوا لکھے گی !!!
@SeharSulehri